1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عالمی یوم مہاجرین: آٹھ کروڑ انسانوں کو مدد کی ضرورت، تبصرہ

20 جون 2020

دنیا بھر میں اس وقت اسی ملین یا آٹھ کروڑ کے قریب انسان مہاجر ہیں۔ گزشتہ دہائی میں عالمی سیاسی عمل میں ناکامی نے مہاجرین کی تعداد بڑھا کر دوگنا کر دی ہے۔

https://p.dw.com/p/3e5DQ
تصویر: Getty Images/C. McGrath

دنیا کی کل آبادی کا ایک فیصد یا تقریباً اسی ملین افراد مسلح تنازعات، جنگی حالات، قحط اور نامناسب صورت حال یا انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیوں سے بچنے کے لیے اپنا گھر بار چھوڑ کر راہِ فرار اختیار کرتے ہوئے محفوظ مقامات پر منتقل ہونے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ عالمی سطح پر مہاجرت پر مجبور انسانوں کی اس بہت بڑی تعداد کا نصف بچوں پر مشتمل ہے۔

آج ہفتہ بیس جون سن 2020 کو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے مہاجرین کی تعداد کے حوالے سے اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی ہے۔ یہ مسلسل بیسواں سال ہے جب یہ ادارہ عالمی یوم مہاجرین پر دنیا بھر میں مہاجرین کی تعداد اور ان کی حالتِ زار پر اپنی رپورٹ جاری کرتا  ہے۔ اس رپورٹ میں اس ادارے نے واضح کیا ہے اب اس دن کو رسماً ایک سالانہ روایت کی سی حیثیت حاصل ہو چکی ہے اور عملی اقدامات کے بجائے محض اعداد و شمار پر نظر ڈالنا ہی باقی رہ گیا ہے۔

امسالہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ برس منائے جانے والے عالمی یوم مہاجرین کے بعد سے ان مہاجرین کی تعداد میں دس ملین یا ایک کروڑ کا اضافہ ہوا ہے اور یہ افراد انسانی المیے کی ایک افسوس ناک تصویر پیش کرتے ہیں۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق معلومہ تاریخ میں مہاجرین کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے اور یہ بات واضح کرتی ہے کہ عالمی سطح پر بین الاقوامی سیاسی عمل کس حد تک ناکامی سے دوچار ہو چکا ہے۔

Symbolbild Kongo Flüchtlinge
تصویر: Reuters/J. Akena

یہ ایک پریشان کن صورت حال بھی ہے کہ ہتھیاروں کی تجارت عالمی سطح پر بڑھ رہی ہے اور یہی ہتھیار مسلح تنازعات میں شدت کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دولت کی غیر مساوی تقسیم نے بھی معمول کی زندگی کو متاثر کر رکھا ہے اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے زمین کے درجہٴ حرارت میں اضافے کے علاوہ کورونا وائرس کی وبا نے بھی انسانوں میں مہاجرت کے رجحان کو تقویت دی ہے۔ ان مسائل نے مزید کئی ملین انسانوں کی محفوظ مقامات کی جانب منتقلی کا خطرہ بھی کھڑا کر دیا ہے۔

مسلح تنازعات کے شکار ممالک کو بین الاقوامی پابندیوں کا بھی سامنا ہے اور اس باعث بھی مقامی آبادیاں نامساعد حالات سے دوچار ہیں۔ مہاجرین سے متعلق عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ شام اور وینزویلا سے لوگوں کے فرار ہونے کی ایک بڑی وجہ ان ممالک پر عائد کردہ شدید نوعیت کی بین الاقوامی معاشی پابندیاں ہیں۔ جنگی حالات اور پابندیوں کے باعث شامی مہاجرین کی ایک بڑی تعداد ترکی میں مقیم ہے جبکہ سیاسی عدم استحکام کے شکار ملک وینزویلا سے ترک وطن کرنے والے شہری کولمبیا میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

DW Kommentarbild Matthias von Hein
ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار ماتھیاس فان ہائن

گزشتہ بدھ سترہ جون کو اقوام متحدہ نے شام کے خلاف نئی پابندیاں عائد کر دیں۔ اس شورش زدہ عرب ملک میں اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں پہلے ہی ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ شام کے دور دراز علاقوں میں جہاں جنگی حالات ختم ہو چکے ہیں، وہاں مقامی بستیوں کے رہائشی باشندوں میں بھوک و افلاس پھیلنا شروع ہو چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے اس ادارے کے سربراہ فیلیپو گرانڈی کا کہنا ہے مہاجرت ختم کر کے واپس اپنے اپنے وطن لوٹ جانے والوں کی تعداد حوصلہ افزا نہیں ہے کیونکہ ان کے آبائی ممالک میں حالات بدستور ناموافق ہیں۔ UNHCR کے سربراہ کے مطابق سن 1990 کی دہائی میں اپنے ممالک کو واپس جانے والے مہاجرین کا سالانہ تعداد پندرہ لاکھ کے قریب ہوتی تھی جو اب بہت کم ہو کر محض چار لاکھ سالانہ رہ گئی ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق جرمنی اس وقت ایسا پانچواں ملک ہے، جو اپنے ہاں گیارہ لاکھ مہاجرین کو پناہ دے چکا ہے۔ ان مہاجرین کو پناہ دینے کے معاملے کی ملک میں مقبول ہوتی ہوئی عوامیت پسند سیاسی جماعت الٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ یا اے ایف ڈی کی طرف سے مخالفت ابھی تک جاری ہے۔ یہ مخالفت اس بات کی نشاندہی بھی کرتی ہے کہ مہاجرین کی مخالفت اور ان کے خلاف متعصبانہ سوچ پھیلانا کئی ملکوں میں وہاں کے سیاسی عمل کا حصہ بن چکے ہیں۔

جرمنی میں مہاجرین کی آمد کم ہو چکی ہے۔ اس لیے سیاسی پناہ کی نئی درخواستیں بھی کم جمع کرائی جا رہی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران سرحدوں کی سخت نگرانی بنی۔ نتیجتاً بحیرہ روم انسان دوستی سے متعلق اعلیٰ یورپی اقدار کے بارے میں بلند بانگ دعووں اور بیانات کا منہ چڑانے والا ایک گڑھا بن کر رہ گیا ہے۔

ماتھیاس فان ہائن (ع ح / م م)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں