1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
ماحولعالمی

عالمی ماحولیاتی کانفرنس: مندوبین معاہدہ طے کرنے کی کوشش میں

19 نومبر 2022

مصر میں جاری اقوام متحدہ کی ماحولیاتی کانفرنس کے دورانیے میں کم از کم ایک دن کی توسیع کی گئی ہے۔ معاہدہ طے نہ پانے کی بڑی وجہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث ہونے والے نقصانات کے ازالے کی ادائیگی ہے۔

https://p.dw.com/p/4JmWj
تصویر: MOHAMMED SALEM/REUTERS

امید کی جا رہی ہے کہ مندوبین اضافی وقت میں حتمی معاہدہ طے کر لیں گے۔

یورپی یونین کی ماحولیاتی پالیسی کے سربراہ فرانس ٹمرمانز نے مصر میں جاری COP27 اجلاس میں مذاکرات کاروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایک ایسا معاہدہ طے کریں جو گزشتہ معاہدوں پر مبنی ہو اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے پر 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کی حد برقرار رکھنے کے لیے کارآمد ہو۔

انہوں نے ہفتے کے روز ایک ٹویٹ میں کہا، ’’یورپی یونین آگے بڑھنے اور گلاسگو میں ہم نے جو اتفاق کیا، اسے بہتر بنانے کے عزم پر متحد ہے۔ شراکت داروں کے لیے ہمارا پیغام واضح ہے: ہم یہ قبول نہیں کر سکتے کہ 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ یہاں اور آج ختم ہو جائے۔‘‘

مذاکرات کار COP27 اجلاس کے دوران معاہدے کو حتمی شکل دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جس مسئلے پر ابھی تک اتفاق نہیں ہو پا رہا وہ یہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث ہونے والے نقصانات کی زیادہ ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے اور اس کے ازالے کے لیے رقوم کون ادا کرے گا۔

اسی اختلاف کے باعث مقررہ وقت تک کوئی معاہدہ طے نہیں پا سکا اور اجلاس میں کم از کم ایک روز کی توسیع کر دی گئی۔

اگرچہ گزشتہ اجلاسوں میں بھی توسیع ہوتی رہی ہے لیکن اس برس کے اجلاس کو موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے کے لیے عالمی عزم کے ایک اہم امتحان کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ اس اجلاس سے قبل ہی یوکرین میں جنگ اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے دنیا بھر کی حکومتوں کو پریشان کر رکھا تھا۔

اس برس اجلاس کی میزبانی اور صدارت مصر کے پاس ہے۔ COP27 کے صدر اور مصر کے وزیر خارجہ سامح شکری نے جمعے کو رات دیر گئے نامہ نگاروں کو بتایا، ’’میں اس کانفرنس کو منظم انداز میں کل ختم کرنے کے لیے پرعزم ہوں، جس میں اتفاق رائے سے کیے گئے متعدد فیصلوں کو اپنایا جائے گا جو جامع اور متوازن ہوں گے۔‘‘

موسمیاتی معاوضےکے پاکستانی مطالبے پرکوئی کان بھی دھر رہا ہے؟

جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے شرم الشیخ میں کہا، ’’یہ ایک انتہائی مشکل دن ہو گا، شاید ایک سخت رات بھی ہو گی۔ ہمارے سامنے اب بھی کافی فاصلہ ہے لیکن اگر ہم ایمانداری سے اپنی طرف سے اجتماعی پیش رفت کرنے کے لیے تیار ہیں، تو اب تک جواب طلب کوئی بھی سوال ناقابل حل نہیں ہے۔‘‘

اب تک کن موضوعات پر اتفاق ہوا ہے؟

جمعے کے روز جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا کہ تقریباﹰ 200 رکن ممالک ایک معاہدے پر متفق ہو چکے ہیں جس کے مطابق گلوبل وارمنگ کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے کے گزشتہ وعدوں کی توثیق کی گئی ہے۔

یہ ایک ایسا اہم نکتہ ہے جس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں سائنس دانوں کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات کو زائل کرنا ناممکن ہو سکتا ہے اور یہ تبدیلیاں مزید شدت اختیار کر لیں گی۔

مسودے کے مطابق بیان میں اس بات کی توثیق کی جائے گی کہ زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے کے لیے آئندہ برسوں کے دوران کاربن گیسوں کے اخراج میں تیزی سے اور نمایاں کمی کی ضرورت ہے۔

اگرچہ ناقدین ماضی میں بھی یہ کہتے رہے ہیں کہ ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ تک حد مقرر کرنے سے بھی درکار نتیجہ حاصل کرنے میں بہت کم مدد ملے گی۔

اس متن میں رکن ممالک کو آئندہ نومبر تک موجودہ دہائی کے لیے قلیل مدتی منصوبے مرتب کرنے کا موقع ملے گا اور حوصلہ افزائی کی جائے گی کہ وہ طویل مدتی منصوبے جمع کرانا شروع کریں۔

مبصرین نے یہ بھی نوٹ کیا کہ مسودے میں خاص طور پر 'کم کاربن‘ یا 'صاف توانائی‘ کی بجائے 'قابل تجدید توانائی‘ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ سن 2015 کے اجلاس کے بعد سے کسی بھی ماحولیاتی کانفرنس میں یہ حوالہ نہیں دیا گیا تھا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس اصطلاح کو شامل کرنے کا مقصد گیس یا جوہری توانائی کے حصول کی اجازت دینا ہے۔

نقصان کے ازالے کے لیے رقوم کون دے گا؟

اب تک سب سے مشکل مرحلہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے بڑے ذمہ داروں کا تعین کرنا اور یہ طے کرنا ہے کہ ازالے کے لیے ادائیگیاں کون سے ممالک کریں گے۔ اس کے ذریعے ترقی یافتہ ممالک کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے کم ترقی یافتہ ممالک کو رقوم فراہم کرنا ہوں گی۔

اس ضمن میں100 سے زائد ترقی پذیر ممالک اور چین کے ایک گروپ نے ایک عالمی فنڈ قائم کرنے کی تجویز پیش کی تھی، لیکن اسے یورپی یونین اور امریکہ کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

یورپی یونین نے جمعے کے روز کہا تھا کہ وہ سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ یونین نے ایک فنڈ قائم کرنے کی تجویز پیش کی لیکن ساتھ ہی دو اضافی شرائط بھی شامل کر دیں۔

یورپی یونین کے ماحولیات سے متعلقہ امور کے نگران کمشنر فرانس ٹمرمانز نے کہا کہ اس فنڈ کے ذریعے تمام ترقی پذیر ممالک کے بجائے صرف سب سے زیادہ متاثرہ ممالک کو ہی معاوضے کی ادائیگی کی جانا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس فنڈ کے لیے رقوم ’وسیع تر فنڈ بیس‘ سے آنا چاہییں۔ ان الفاظ کا مطلب یہ سمجھا جا رہا ہے کہ چین اور سعودی عرب جیسے ممالک کو بھی اس میں حصہ ڈالنا چاہیے۔

مغربی ممالک یہ دلیل دیتے ہیں کہ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیسوں کا سبب بننے والے چین جیسے ممالک کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک روا رکھا جانا چاہیے جیسا صنعتی ممالک کے ساتھ رکھا جا رہا ہے۔

پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں کےنتائج سنگین ہیں، شیری رحمان

چین کا اس حوالے سے موقف یہ ہے کہ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو موسمیاتی تبدیلیوں کے اسباب میں اس کا حصہ بہت کم ہے۔

کینیڈا کے وزیر ماحولیات اسٹیون گِیلبو نے بھی اس حوالے سے کہا کہ نقصانات کے ازالے کے لیے فنڈ قائم کرنے پر اتفاق ہو سکتا ہے لیکن ’اس میں زہریلی گیسوں کے اخراج کا سبب بننے والے ممالک، یعنی چین، سعودی عرب اور قطر جیسے ممالک کو بھی شامل‘ کیا جانا چاہیے۔

ش ح / م م (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)