1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عالمی سیاست: ان کرداروں کے لیے 2015ء اچھا سال نہ رہا

امجد علی22 دسمبر 2015

آئیے آپ کو بتائیں، عالمی سیاست کے اُن چند کرداروں کے بارے میں، جن کے ساتھ بہت سی امیدیں وابستہ کی گئی تھیں یا جو بہت زیادہ طاقت کے حامل تھے تاہم عملی طور پر یہ افراد اپنے ساتھ وابستہ کی گئی توقعات پر پورا نہ اتر سکے۔

https://p.dw.com/p/1HRgM
Saudi-Arabien König Salman
شاہ سلمان کی حکومت کو تیل کی کم قیمتیں تو کمزور کر ہی رہی ہیں، اب اُنہیں خود اپنے شاہی خاندان کی جانب سے بھی زیادہ سے زیادہ دباؤ کا سامنا ہےتصویر: picture-alliance/dpa/O. Douliery

نکولس مادورو

وینزویلا کے باون سالہ صدر نکولس مادورو نے 2015ء میں پورے جنوبی امریکا کو دم بخود کیے رکھا: چھوٹے سے ملک گیانا کے ساتھ محاذ آرائی، کولمبیا کے ہزاروں شہریوں کو وینزویلا سے نکال دیا اور کولمبیا کے ساتھ سرحد بند کر دی۔ بہت سے حلقوں کے نزدیک ان اقدامات کا مقصد وینزویلا کے اقتصادی بحران سے توجہ ہٹانا تھا۔ دنیا بھر میں معدنی تیل کے سب سے بڑے ذخائر کے مالک اس ملک میں قتل کی شرح انتہائی زیادہ ہے۔ دسمبر میں منعقدہ انتخابات میں عوام نے مادورو اور اُن کی سوشلسٹ پارٹی کو رَد کر دیا۔ اس ملک میں اب بورژوا طاقتیں دو تہائی اکثریت کی حامل ہو چکی ہیں اور 2016ء میں ریفرنڈم کے ذریعے مادورو کو اقتدار سے رخصت کرنا چاہتی ہیں۔ ایسا ہو گیا تو اُوگو چاویز کا اکیس ویں صدی کا سوشلزم بھی ناکام قرار پائے گا۔

شام کے مغرب نواز باغی

امریکا ایک عرصے سے ان باغیوں کی مدد سے بشار الاسد کا تختہ الٹنے کی امید کر رہا تھا تاہم یہ باغی دو محاذوں کے درمیان پِس کر رہ گئے۔ اُنہیں ایک طرف سے سرکاری شامی افواج کا سامنا تھا اور دوسری طرف سے دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کا۔ ان باغیوں نے القاعدہ سے نظریاتی وابستگی رکھنے والے النصرۃ فرنٹ کے ساتھ قربتیں بڑھا لیں اور مغربی دنیا کی جانب سے نظر انداز کیے جانے کا شکوہ کرنے لگے۔ کہاں تو سالانہ پانچ ہزار مغرب نواز باغیوں کو فوجی تربیت حاصل کرنا تھی اور کہاں محض چند درجن کو یہ تربیت مل سکی اور وہ بھی آسانی سے انتہا پسند قوتوں کی نظروں میں آ گئے۔

Ehemaliger italinienischer Premier Silvio Berlusconi
سِلویو بیرلُسکونی نابالغ لڑکی کے ساتھ جنسی تعلق کے مقدمے سے تو بری ہو گئے لیکن حالات نے سیاسی منظر نامے سے بھی غائب کر دیاتصویر: picture-alliance/AP Photo/R. D. Luca

سِلویو بیرلُسکونی

اٹلی کے اُناسی سالہ سابق وزیر اعظم سِلویو بیرلُسکونی 2015ء میں ایک بار پھر سیاست کے میدان میں دھماکہ خیز انداز میں داخل ہو کر اپنے ملک کے سیاسی منظر نامے پر چھا جانا چاہتے تھے لیکن ساری تدبیریں الٹی پڑ گئیں۔ پہلے تو وزیر اعظم ماتیو رینزی نے بیرلُسکونی کی مرضی کے خلاف آئینی عدالت کے جج سیرگیو ماٹاریلا کو صدرِ مملکت بنوا لیا۔ پھر ایک نابالغ لڑکی کے ساتھ جنسی تعلق کے مقدمے میں اگرجہ بیرلُسکونی بری تو ہو گئے لیکن سیاست میں آگے بڑھنے کا خواب شرمندہٴ تعبیر نہ ہو سکا۔ اُن کی سیاسی جماعت فورسا اٹالیا اب محض گیارہ فیصد عوامی حمایت کے ساتھ پچھلی صفوں میں ہی جگہ پا رہی ہے۔

شاہ سلمان

اس سال جنوری میں شاہ عبداللہ کی وفات کے بعد اُناسی سالہ شاہ سلمان دنیا کی ایک طاقتور سلطنت سعودی عرب کے سیاہ و سفید کے مالک بنے۔ اُنہوں نے طاقت کا راستہ اپنایا اور یمن کی خانہ جنگی میں مداخلت شوع کر دی۔ اس مداخلت کے نتیجے میں یمن میں ہزاروں انسان جان سے گئے اور وہاں امن نہ آ سکا۔ تیل کی قیمتوں میں کمی اُن کی سلفی حکومت کو کمزور کرتی جا رہی ہے اور اب تو اُنہیں خود اپنے شاہی خاندان کی جانب سے دباؤ کا سامنا ہے۔ سعودی عرب کے لیے اس سال کا پریشان کن لمحہ وہاں حج کے دوران اٹھارہ سو سے زیادہ عازمین کی ہلاکت تھی۔ ایران کے ساتھ ایٹمی پروگروام پر ہونے والے تصفیے کے بعد خطّے میں سعودی عرب کا اثر و رسوخ مزید کم ہونے کے خدشات بڑھ گئے۔

Australien Premierminister Tony Abbott 08.01.2015
آسٹریلیا کے سابق سربراہِ حکومت ٹونی ایبٹ ایک سے ایک متنازعہ بیان دینے کے بعد دو سال کے اندر اندر وزارتِ عظمیٰ سے ہاتھ دھو کر گھر چلے گئےتصویر: Daniel Kalisz/Getty Images

ٹونی ایبٹ

آسٹریلیا کے سابق وزیر اعظم ٹونی ایبٹ نے ملکی سربراہِ حکومت کے طور پر متنازعہ بیانات جاری کرنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیا۔ ان بیانات کا نتیجہ یہ نکلا کہ اُن کی مقبولیت تیزی سے کم ہونے لگی اور دو سال بعد ہی خود اُن کی پارٹی کے ساتھیوں نے بھی اُن کا ساتھ چھوڑ دیا۔ ستمبر میں راتوں رات ہونے والی ایک کارروائی کے باعث میلکم ٹرن بُل پارٹی قائد بن گئے، جس کے بعد ٹونی ایبٹ کو وزارتِ عظمیٰ سے بھی محروم ہونا پڑا۔