عاصمہ جہانگیر کو سپرد خاک کر دیا گیا
13 فروری 2018اس سے پہلے منگل کی سہ پہر عاصمہ جہانگیر کی نماز جنازہ قذافی اسٹیڈیم کے باہر ادا کی گئی، اس موقعے پر سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ قذافی سٹیڈیم آنے والے تمام راستوں کو ہر طرح کی ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا اور نماز جنازہ میں آنے والوں کو ایک ہی راستے سے تلاشی لیے جانے کے بعد شرکت کی اجازت دی گئی۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا عاصمہ جہانگیر کو خراج عقیدت
عاصمہ جہانگیر کی نماز جنازہ جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی کے صاحب زادے سید حیدر فاروق مودودی نے پڑھائی۔ نماز جنازہ میں سیاسی و سماجی شخصیات، وکلا ، سول سوسائٹی سے وابستہ افراد اور انسانی حقوق کے کارکنوں سمیت شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ عاصمہ جہانگیر کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے ملک کے دیگر حصوں سے بھی لوگ یہاں پہنچے تھے۔ عوامی نیشنل پارٹی کا ایک وفد بھی اے این پی کے رہنما افتخار حسین کی قیادت میں خاص طور پر نماز جنازہ میں شرکت کے لیے لاہور پہنچا تھا۔ نماز جنازہ کے موقع پر خواتین کی بڑی تعداد بھی وہاں موجود تھی۔
عاصمہ جہانگیر کی نماز جنازہ میں شرکت کرنے والوں میں چیئرمین سینٹ رضا ربانی، سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری، نجم سیٹھی، صحافی امتیاز عالم، وفاقی وزیر سعد رفیق، مہ ناز رفیع، اعتزاز احسن، علی احمد کرد ، پرویز رشید، افراسیاب خٹک ، افتخار حسین اور اکرم شیخ ایڈوکیٹ بھی شامل تھے۔
عاصمہ جہانگیر کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان میں انسانی حقوق کے کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر مہدی حسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عاصمہ نے اپنے چند ساتھیوں سے مل کر سن 1984 میں انسانی حقوق کے کمیشن کی بنیاد رکھی اور وہ پاکستان میں بے آواز لوگوں کی آواز بنیں۔ ’’زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور موت ایک حقیقت ہے لیکن عاصمہ کی موت سے پاکستان میں پیدا ہونے والا خلا شاید کبھی پورا نہ ہو سکے۔‘‘
ڈاکٹر مہدی حسن کے بقول عاصمہ جہانگیر نے قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق کی پاسداری اور جمہوریت کی بالا دستی کے لیے گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’ان کے راستے میں مصیبتوں کے پہاڑ کھڑے کیے گئے لیکن وہ ثابت قدمی سے اپنے مقصد کے لیے ڈٹی رہیں۔‘‘
عاصمہ جہانگیر کے حوالے سے پاکستانی معاشرے میں پائی جانے والی تقسیم کے حوالے سے پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر مہدی حسن نے بتایا کہ پاکستان میں ایک مخصوص طبقہ حالات کو ہمیشہ مذہبی حوالوں سے دیکھتا ہے۔ ان کے بقول، ’’پاکستانی معاشرے میں مذہبی انتہا پسندی کا حامل ایک اقلیتی طبقہ پورے پاکستانی معاشرے کو اس وقت کنٹرول کر رہا ہے۔لیکن ہماری کوشش ہو گی کہ عا صمہ کے بعد بھی ان کے جلائے ہوئے چراغ کو بجھنے نہ دیں اور یہ جدو جہد جاری رہے۔‘‘
ایک دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈیئر فاروق حمید خان نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’عاصمہ جہانگیر کی وفات انتہائی افسوسناک ہے اس پر ہم سب غم زدہ ہیں کیونکہ ہم ان کی قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کے لیے کی جانے والی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔‘‘ لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عاصمہ جہانگیر اپنی بعض پالیسیوں کے باعث پاکستانی معاشرے میں متنازعہ حیثیت بھی اختیار کر چکی تھیں۔ بریگیڈیئر خان کے مطابق، ’’ان کے بھارت کی حمایت اور آرمی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بنایات پاکستان میں بہت سے لوگوں کو پسند نہیں تھے۔ خاص طور پر ان کا بنگلہ دیش کی حکومت سے ایوارڈ لینا بہت سے لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث بنا۔ اس کے باوجود میں یہ کہتا ہوں کہ پاکستانی معاشرے کے لیے ان کی خدمات بھی نمایاں تھیں۔ لیکن اس صورتحال میں میری رائے یہ ہے کہ ان کے لیے سرکاری اعزاز کے ساتھ تدفین کا مطالبہ کرنا مناسب نہیں ہے۔‘‘
یہ امر بھی اہم ہے کہ پاکستان میں چیئرمین سینیٹ رضا ربانی اور مسلم لیگی رہنما پرویز رشید سمیت کئی شخصیات نے عاصمہ جہانگیر کی سرکاری اعزاز کے ساتھ تدفین کا مطالبہ کیا تھا۔