1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عاشورہ کی روایت وثقافت بھی سمجھو کہ چل بسی

30 اگست 2020

بر صغیر میں مزارات کا پس منظر مذہبی ہے اور مذہب میں پھر اسلامی ہے۔ مگر ایک ہندو یا سکھ جب اسی مزار پر من کی مرادیں لے کر پہنچتا ہے تو مزار کا حوالہ مذہب و مسلک سے بالاتر ہو جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/3hl4b
DW Urdu Blogger Farnood Alam
تصویر: Privat

شرک و گمراہی اور جائز ناجائز کی نسبتیں ختم ہو جاتی ہیں اور اپنائیت کے رنگ گہرے ہو جاتے ہیں۔ وہ مزار کسی خاص فرقے کا رنگ اتار دیتا ہے اور تاریخ کے چوراہے پر تہذیب اور ثقافت کا حوالہ بن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔

’مملکتِ ضیا داد‘ پاکستان میں کم ہی کوئی مزار اب آپ کو ایسا ملے گا، جو اپنے رنگ ڈھنگ میں اجمیر شریف جیسا ہو۔ سندھ کی بات البتہ اور ہے۔کوئی شک نہیں کہ لنگر نیاز کھانے یہاں سبھی آتے ہیں مگر چادر چڑھانے کا خیال کسی غیر مسلم کو آجائے تو کچھ دیر اپنے حلق میں خشکی ضرور محسوس کرتا ہے۔ بالکل آتے ہیں، غیر مسلم اب بھی آتے ہیں مگر اجنبیت کے احساس کے ساتھ آتے ہیں۔ پہلے وہ آنے کے لیے آتے تھے، اب آتے ہیں تو جانے کے لیے آتے ہیں۔ لگاوٹ نہیں رہی، بس رسمِ دنیا نبھانے کے آتے ہیں۔ اس احساس کے ساتھ آتے ہیں کہ

اب وہ مہکی ہوئی سی رات نہیں

بات کیا ہے کہ اب وہ بات نہیں 

 بات یہ ہے کہ ہم ایسی سلطنت کے شہری ہیں جہاں دستور نے مذہب کا چشمہ پہنا ہوا ہے۔ وہ شہریوں کو برابری کے درجے میں رکھ کر دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ یوں کہہ لیں کہ فرقہ واریت باقی دنیا میں تو ایک سماجی مسئلہ ہے مگر ہمارے ہاں اسے آئینی اور نصابی حیثیت حاصل ہے۔ جس نظام نے ہمیں تحفظ دینا تھا وہ اپنی دانست میں عرشِ خدا کا ترجمان بن گیا ہے۔ تہذیب اور ثقافت کو قدم اٹھانے سے پہلے ان سے این او سی لینا پڑتا ہے۔ جائز ناجائز کے کچھ پیمانے تشکیل دیے جا چکے ہیں جن پر زندگی کے ہر حوالے کو  پرکھا جاتا ہے۔ جو بات ریاست کے بالادست مسلک کے مطابق نہ ہو، اسے غلط قرار دے دیا جاتا ہے۔

اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اُن ساری روایتوں پر مسلکوں کے کاپی رائٹس پختہ ہو جاتے ہیں، جو کبھی ثقافتی حیثیت جانی جاتی تھیں۔ اندازہ کیجیے کہ حضرت علی کو مسلمان خیبر کے فاتح کے طور پر جانتے ہیں۔ خیبر کا ہی رنج رکھنے والے یہودی "علی مولا علی مولا دم دم" جیسی قوالیوں کو عبرانی میں گا رہے ہیں۔ کیا نصرت فتح علی خان اپنے پاکستانی پاسپورٹ پر اسرائیل کا سفر کر سکتے تھے؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ تو پھر ان کی قوالیاں کس راستے سے ہو کر اسرائیل میں داخل ہو رہی ہیں؟ فن اور ثقافت کی طلسمی چادر کا کرشمہ ہے کہ یہ سفر ممکن ہو پایا ہے۔ فن کی سرحد نہیں ہوتی اور ثقافت کا کوئی عقیدہ نہیں ہوتا۔ اب اگر کوئی محدود چشم اور خشک علم راہب اٹھ کر جائز ناجائز کے روڑے اٹکا دے تو کیا ہو سکتا ہے۔

یہ محرم کا مہینہ ہے اور آج عاشورہ کا دن ہے۔ اک ذرا اپنے بچپن کا عاشورہ ذہن میں لائیے اور پھر آج کا منظر نامہ دیکھیے۔ اسی ملک میں ہم نے وہ عاشورہ بھی دیکھا، جس میں سنیوں نے سبیلیں لگائیں، نیاز بانٹی، جلوس نکالے، جھنڈے لہرائے اور پیادہ پا چلنے والے سیاہ پوش عزاداروں کی راہوں میں پلکیں بچھائیں۔ ہمارے بزرگوں کو اپنی زندگی میں اور ہمیں اپنے بچپن میں کبھی اس بات کا احساس ہی نہ ہوا کہ پانی کی سبیل اور نوحوں مرثیوں کے جملہ حقوق کسی ایک مکتبِ فکر کے نام محفوظ ہیں۔ ہم نے تو یہی دیکھا کہ یہاں ترقی پسند ادب نے بھی مرثیے اور نوحے کو شاعری میں ایک معتبر صنف کے طور پر قبول کیا۔

دیکھتے ہی دیکھتے یہ وقت آیا کہ حلال حرام اور جائز ناجائز کے وہ سارے سبق پختہ ہونے لگے، جو 80 کی دہائی میں بہت محنت سے پڑھائے گئے تھے۔ مسلم ہندو کا فرق تو لوگ پہلے ہی جان گئے تھے اب اسی اصول پر شیعہ سنی کا فرق بھی جاننے لگے۔ رفتہ رفتہ دسترخوان سکڑنے لگے اور لوگوں نے برتن الگ کرنا شروع کر دیے۔ رشتوں سے پہلے دانت چیک کرنے کا رواج آ گیا کہ لمڈا یا لونڈیا کہیں شیعہ تو نہیں ہے؟ کسی اسامی کے لیے آنے والی درخواستوں پر محدب عدسے لگا کر دیکھا جانے لگا کہ امیدوار کہیں "کائنات کا بدترین کافر" تو نہیں ہے۔

نتیجہ یہ ہوا کہ جو رسمیں مٹی کی روایت میں گھل کر ثقافت کے رنگوں میں رنگ گئی تھیں وہ دامن جھاڑ کر واپس مذہب کے محدود دائرے میں چلی گئیں۔ ہوتے ہوتے یہ تیرا وہ میرا کی بحث چھڑ گئی اور نوبت روک ٹوک تک پہنچ گئی۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ ہمارے پنج وقتہ نمازی بزرگ بھی شادی بیاہ اور کسی میلے جھمیلے میں جاتے تو روایتی رقص میں حصہ لیتے تھے۔ خواتین تک کو ساتھ ملا کر طبلے کی تھاپ پر ٹپے اور امبڑیاں گاتے تھے۔ ایسا کر کے وہ دراصل میزبانوں کو اپنائیت کا احساس دلاتے تھے اور عزت بخشتے تھے۔ تازہ ارشادات میں جذبات کا یہ رقصیہ اظہار اور محبت کے گیت عیاشی و فحاشی کا درجہ اختیار کر چکے ہیں۔ حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ جامعات میں پشتون، بلوچ، سندھی یا پنجابی اپنے روایتی دن مناتے ہوئے اتنڑ، چھاپ، ناچڑ اور بھنگڑا دھمال ڈالیں تو طلبا کی ایک بڑی اکثریت انتظامیہ کی آشیرباد کے ساتھ تمبو الٹنے  چلی آتی ہے۔

چچا ماجد ہمارے محلے کی ایک معتبر شیعہ شخصیت تھیں۔ ان کے بنیادی تعارف میں محبت، متانت، رواداری اور کتاب کے حوالے ملتے ہیں۔ ایک دن خراسان کی مجلس سے لوٹے تو بہت بے چین نظر آئے۔ بولے، میاں یہ دن آگئے کہ ایم اے جناح روڈ پر سبیل کے ساتھ دو چار جوانوں کو کھڑا کرنا پڑ رہا ہے کہ سبیل پہ نگاہ رکھیں؟ یہ دن بھی ہم نے دیکھنا تھا کہ لوگ سبیلیں الٹ کر جا رہے ہیں؟ غضب خدا کا کہ لوگ غدیر چوک کی سبیل سے آب خورے تک اکھاڑ کے لے گئے ہیں؟ یہ ہم کس زمانے میں پیدا ہو گئے میاں کہ اب پانی کے گلاس بھی زنجیروں سے باندھنے پڑ رہے ہیں۔ کس قدر ناخوش گوار منظر ہے یہ میاں۔ لاحول ہے بھئی لاحول ہے!

نفرتوں کے تازہ نمونے دیکھنے کے بعد حیرت ہوتی ہے کہ چچا ماجد کو بس اتنی سی بات نے پریشان کر دیا تھا کہ سبیلیں محفوظ نہیں رہیں؟ بس اتنی سی بات پر؟ ارے یہ چھوڑیے، کوئی ڈیڑھ صدی پہلے لکھنو میں تو صرف اس بات پر ہر طرف سناٹا چھا گیا تھا کہ شیعوں اور سنیوں نے عزاداری کے لیے اپنی کربلائیں الگ کر لی ہیں؟ جی ہاں، اتنی سی بات پر فضا سوگوار ہوگئی تھی کہ سنی اب بھی جلوس نکالتے ہیں، تعزیے ٹھنڈے کرتے ہیں اور عزاداری بھی کرتے ہیں مگر الگ کرتے ہیں۔ یہ معاملہ آج کے خوش عقیدہ سنیوں کے سامنے رکھ دیا جائے تو کہیں گے، مانا کہ لکھنو کے سنیوں نے اچھا کیا کہ اپنے برتن الگ کر لیے مگر جہنم کی آگ میں تو پھر بھی جلیں گے۔ برتن الگ کر کے بھی یہ ناہنجار کفر ہی کرتے رہے۔

لکھنو کی بات چلی ہے تو ایک بات سنتے جائیے جو خلیق ابراہیم خلیق نے اپنی آپ بیتی "منزلیں گرد کی مانند" میں ہمیں بتائی ہے۔ کہتے ہیں، لکھنو کے تال کٹورا نامی جس مرکزی کربلا میں تعزیے ٹھنڈے کیے جاتے تھے وہاں ایک سنی فقیر ڈھول پیٹتا تھا اور 'حق چار یار‘ کا نعرہ لگاتا تھا۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اس فقیر کو کسی شیعہ عزادار نے آتے جاتے روکا ہو یا ٹوکا ہو۔ سب ہنسی خوشی اس کا نعرہ سنتے جاتے تھے اور دھیرے دھیرے اپنا سینہ پیٹتے ہوئے گزرتے جاتے تھے۔

یہ 'حق چار یار‘ نعرہ بھی تب اس لیے برداشت کیا گیا کہ یہ کسی مذہب یا  فرقے کی نسبت سے آزاد ہوگیا تھا۔ بالکل اسی طرح جس طرح کچھ عرصے پہلے تک ہمارے ہاں نعرہِ حیدری ہوا کرتا تھا۔ نعرہِ حیدری کا مقام ہماری روایت میں وہی تھا جو ماشااللہ، سبحان اللہ، لاحول ولا، اناللہ، استغفر اللہ اور الحمدللہ کا ہے۔ ان الفاظ کی پرورش مذہب کی کوکھ میں ہوئی ہے مگر غمی خوشی، عہد و پیمان، داد وتحسین اور عزم و ارادے کے اظہار کے لیے کبھی ضروری نہیں رہا کہ کہنے والا عقیدے کا مسلمان ہو۔ پاکستان میں مقیم کوئی گورا انگریز بھی اگلی بار ملاقات کا وعدہ کرتا ہے تو انشااللہ بہت سہولت سے کہہ دیتا ہے۔

آپ کے ہاں بھی ایسا ہی ہوتا ہوگا کہ بچہ لڑکھڑا جائے، برتن گرجائے یا ٹکر لگ جائے تو دل حلق میں آجاتا ہے اور بے ساختہ منہ سے بسم اللہ نکل جاتی ہے۔ عقل کی میزان پر پرکھ کر دیکھیں یا مذہب کی روشنی میں دیکھ لیں، بہر دوصورت ایسے موقع پر بسم اللہ کا کوئی مطلب سمجھ نہیں آتا۔ ریت روایت اور کسے کہتے ہیں، اسی کو کو کہتے ہیں۔کیسا لگےگا کہ کوئی آپ سے کہہ دے کہ ایسے کسی موقع پر بسم اللہ کا سرزد ہوجانا ازروئے شرع ناجائز ہے؟

یہ بھی پڑھیے:

کراچی کے قدیم علاقے، جہاں محرم کا کوئی مسلک نہیں

 

 لوگ زور لگاتے، وار کرتے، کچھ اٹھاتے یا جھٹکے سے کچھ کھینچتے تو نعرہ حیدری لگاتے تھے۔ ہماری افواج میں اور آس پاس میں ہم نے یہ نعرہ ہندو مسیحی اور سکھ کو بھی لگاتے ہوئے دیکھا۔ سنیوں کے لیے بھی اس میں حرج کی کوئی بات نہیں تھی۔ مگر یہ نعرہ اب فتوی ساز کارخانوں کو جواب دہ ہوگیا ہے۔ اس کے جملہ حقوق صرف شیعہ مکتبِ فکر کے نام محفوظ ہوچکے ہیں۔ یہ نعرہ کوئی سنی لگا دے تو محفل میں سناٹا چھا جاتا ہے اور دیدے پھاڑ پھاڑ کے لوگ گھوریاں بھرنے لگتے ہیں۔

وقت کے گزران کے ساتھ انسان توقع کرتا ہے کہ انسانی شعور مزید پختہ ہو گا اور رواداری کی ثقافت مضبوط ہو گی۔ مگر آج جدید ترین سائنسی دور میں بھی ہماری اخلاقی حالت اس قدر پتلی ہے کہ لکھنو کے فرقہ پرستوں کو بھی منہ دکھانے کے نہیں ہیں۔ کیا یہ تصور بھی ممکن ہے کہ کسی امام باڑے کے دروازے پر کوئی 'حق چار یار‘ کا نعرہ لگائے گا اور کوئی روکے گا نہیں؟ کسی مسجد کے دروازے پر کوئی نعرہِ حیدری بلند کرے گا اور کوئی ٹوکے گا نہیں؟ سچ تو یہ ہے کہ یہاں ٹھوکنے کا چلن اتنا بڑھ گیا ہے کہ ٹوکنے کو اب کوئی فرقہ واریت بھی نہیں سمجھتا۔ حالات یہ ہوگئے ہیں کہ ایک صدی قبل جو بات لکھنو میں فرقہ واریت تھی، وہی بات اگر آج ہمارے معاشرے میں رائج ہوجائے تو لوگ ہماری رواداری کی مثالیں دیا کریں گے۔

اچھے وقتوں کو کیا روئیں، ہمارے پاس تو اچھے وقتوں کے آخری گواہ بھی نہیں رہے۔ چچا ماجد پہلے ہی گزرگئے تھے، اب تو طالب جوہری بھی نہیں رہے۔ کیا بنے گا؟ یہ عشق کرتی اداس نسلوں کا کیا بنے گا!