طویل تعطل کے بعد اب پاک بھارت مذاکرات کی امیدیں
5 فروری 2010ایک گھنٹے تک جاری رہنے والی اس ملاقات کے حوالے سے پاکستان کے ہائی کمشنر شاہد ملک کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کے نکات پر کام ہورہا ہے۔ ملک نے کہا کہ اگر بھارت دہشت گردی کے مسئلے پر بات چیت کرنا چاہتا ہے تو پاکستان اس کے لئے تیار ہے۔
تقریباً چودہ ماہ کے تعطل کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کا راستہ ہموار ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔
بھارتی دفترخارجہ کا کہنا ہے کہ سیکریڑی خارجہ اور پاکستان کے ہائی کمشنر کے درمیان ملاقات تعمیری رہی۔ نئی دہلی کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کو پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی اس پیشکش کے جواب کا انتظار ہے، جو بھارتی سیکریڑی خارجہ نے دس دن پہلے اپنے پاکستانی ہم منصب سلمان بشیر کو دی تھی۔
ایک بھارتی روزنامے کا دعویٰ ہے کہ بھارت نے گزشتہ تین ماہ میں پاکستان کو سرکاری طور پر مذاکرات کی یہ دوسری دعوت ہے۔
پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے مذاکرات کی بھارتی پیش کش کا خیرمقدم کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ پاکستان کشمیر سمیت تمام اہم مسائل پر بھارت کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتا ہے۔
بھارت نے نومبر2008 کے ممبئی حملوں کا الزام پاکستان میں مبینہ طور پر سرگرم دہشت گرد گروپوں پر لگا کراسلام آباد کے ساتھ تمام قسم کے مذاکرات ختم کردئے تھے۔ بھارت نے بات چیت کے لئے یہ شرط لگائی تھی کہ اسلام آباد پہلے ممبئی حملے کے مبینہ منصوبہ سازوں کو گرفتار کرے۔
ممبئی حملوں کے بعد بھارت نے پاکستان کے ساتھ جامع امن مذاکرات کے حوالے سے سخت موقف اختیار کرلیا تھا۔ بعض ماہرین کے مطابق بھارت کے رویے میں اس موجودہ لچک کا سبب وہ بین الاقوامی دباوٴ ہے، جس کا سامنا نئی دہلی کو حالیہ مہینوں میں مغربی دنیا کی طرف سے کرنا پڑا۔ مغربی ممالک افغانستان میں استحکام کے لئے کوشاں ہیں،جہاں پاکستان اوربھارت اثرورسوخ حاصل کرنے کے لئے بلا واسطہ طور پر مختلف قوتوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
بھارت کے طرف سے مذاکرات کی تازہ پیشکش افغانستان کے مستقبل پر ہونے والی لندن کانفرنس کے بعد سامنے آئی، جس میں طالبان سے مفاہمت کے لئے بات چیت کے ایک منصوبے کو منظوری دی گئی تھی۔ خیال کیا جارہا ہے کہ طالبان کے ساتھ اس مفاہمتی بات چیت میں پاکستان کا کردار کلیدی ہوگا۔
مذاکرات کی یہ خبرایک ایسے وقت میں آئی ہے، جب پاکستان میں سرکاری طور پرعام تعطیل تھی اور پورے ملک میں کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے جلسے، جلوس، سیمینار اور ریلیوں کا انعقاد کیا جارہا تھا جبکہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھی سیاسی درجہ حرارت بڑھا ہوا تھا۔ کشمیر میں چھ نوجوانوں کی ہلاکت کے خلاف سیاسی جماعتیں سراپا احتجاج بنی ہوئی ہیں۔
پاکستان کے صدر آصف زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ملک میں منائے جانے والے یوم کشمیر پر اپنے بیانات میں یہ کہا کہ پاکستان کشمیریوں کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا۔ بھارت نے تاحال ان بیانات پر اپنا ردعمل ظاہر نہیں کیا لیکن تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ بیانات بھارت میں حزبِ اختلاف کے رہنماوٴں کو حکومت کے خلاف محاذ بنانے کے لئے ہتھیار کے طور پر استعمال ہوسکتے ہیں، جو اس وقت پاکستان کے ساتھ بات چیت کے حق میں نہیں ہیں۔
رپورٹ: عبدالستار
ادارت: گوہر نذیر گیلانی