طورخم پر پاسپورٹ کی شرط، تجارت متاثر نہیں ہو گی، محمود شاہ
2 جنوری 2017مقامی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق اب کوئی بھی پاکستانی شہری اگر طورخم کے راستے افغانستان جانا چاہیے، تو اسے اپنے ساتھ اپنا پاسپورٹ بھی لازمی طور پر رکھنا ہو گا۔ اس بارے میں ڈوئچے ویلے نے بات کی سلامتی کے امور کے ماہر اور سابق سیکرٹری فاٹا بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمود شاہ سے۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا افغان صوبے ننگر ہار میں جعلی پاکستانی شناختی کارڈ بنائے جا سکتے ہیں؟ محمود شاہ نے کہا: ’’مجھے اس بارے میں کوئی خبر نہیں ہے۔ میرے خیال میں ہمارے (پاکستانی) شناختی کارڈ جس طرح کے ہیں، ان کی نقل تیار کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔‘‘
ایک وقت تھا کہ جب طورخم سرحد سے بیس ہزار سے زائد افغان باشندے روزانہ پاکستان میں داخل ہوتے تھے۔ اس کے بعد ویزا کی شرط عائد کیے جانے کے بعد سے پاکستان آنے والے افغانوں کی تعداد میں نمایاں کمی آ چکی ہے۔ کیا پاسپورٹ کی شرط سے طورخم سرحد پر نقل و حمل شدید متاثر نہیں ہو گی؟ اس سوال کے جواب میں بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’دراصل پاکستان کی طرف سے جتنے بھی لوگ افغانستان جاتے ہیں، وہ پاسپورٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ شرط افغانستان سے آنے والوں کو زیادہ متاثر کرے گی۔‘‘
طورخم کی سرحد کے راستے ہی ان دونوں پڑوسی ممالک کے مابین تجارت بھی ہوتی ہے۔ کیا تاجر اس نئی شرط کو آسانی سے تسلیم کر لیں گے؟ اس بارے میں بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ کا کہنا تھا، ’’میرے خیال میں تجارت کا جہاں تک معاملہ ہے، وہ اس شرط سے الجھنے کے بجائے دراصل سلجھ گیا ہے۔ دونوں ملکوں کے تاجروں کا ایک مشترکہ نظام پر اتفاق ہے۔ اس طرح جو تاجر یا اُن کے ملازمین باقاعدگی سے طورخم کی سرحد پار کرتے ہیں، وہ ایک دوسرے کی ضمانت دیتے ہیں۔ ساتھ ہی زیادہ تر تاجر قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے ہی تجارت کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں پاسپورٹ کی شرط سے دوطرفہ تجارت بالکل بھی متاثر نہیں ہو گی۔‘‘
محمود شاہ کے بقول دونوں ملکوں کی ٹرانسپورٹ تنظیمیں بھی اس مشترکہ نظام کی تائید کرتی ہیں اور اس میں کارگو ڈرائیور مختصر قیام کے بعد واپس اپنے ملک چلے جاتے ہیں، یعنی اسے ایک طرح سے ٹرانزٹ قیام بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔