1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کے ساتھ مذاکرات: آئی ایس آئی کے سربراہ کا دورہ امریکا

امتیاز احمد25 فروری 2015

پاکستان کی طاقتور ترین خفیہ ایجنسی کے سربراہ سرکاری دورے پر امریکا روانہ ہو گئے ہیں۔ ممکنہ طور پر وہ امریکی حکام سے طالبان اور افغان حکومت کے مابین امن مذاکرات سے متعلق بات چیت کریں گے۔

https://p.dw.com/p/1Eh2n
Pakistan Inter-Services Intelligence - Rizwan Akhtar
تصویر: Prakash Singh/AFP/Getty Images

گزشتہ برس انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کا چارج سنبھالنے کے بعد لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر کا امریکا کا یہ پہلا سرکاری دورہ ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان میں ویسے تو سویلین حکومت ہے لیکن خارجہ پالیسی کے معاملے میں اور خاص طور پر افغانستان میں پاکستانی فوج اور اس کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے۔

آئی ایس آئی کے سربراہ ایک ایسے وقت پر امریکا کا دورہ کر رہے ہیں، جب امریکی وزارت دفاع کے سربراہ نے چند روز پہلے ہی یہ اعلان کیا تھا کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کا عمل سست کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔

افغانستان میں تیرہ سالہ شورش کے خاتمے کے لیے پاکستان کے حالیہ اقدامات کو اہم سمجھا جا رہا ہے۔ وہ طالبان جو ابھی تک افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے تیار نہیں تھے، اب ایسا کرنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔

پاکستانی فوج کی طرف سے صرف یہ بیان جاری کیا گیا ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر اپنے ہم منصب سے ملاقات کے دوران ’انٹیلی جنس سے متعلق معاملات پر بات چیت‘ کریں گے۔ لیکن پاکستانی سکیورٹی تجزیہ کار حسن عسکری کا کہنا ہے کہ ملاقات میں لازمی طور پر طالبان کے ساتھ مذاکرات پر بات کی جائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ رضوان اختر اپنے ہم منصب اور دیگر سینئر دفاعی اہلکاروں کو اسلام آباد اور کابل کے باہمی تعلقات میں آنے والی حالیہ بہتری کے بارے میں بتائیں گے اور بارڈر کنٹرول پر دونوں ممالک کے درمیان جاری تعاون پر بھی بات چیت ہوگی۔

ماضی میں کرزئی حکومت پاکستان پر طالبان کی حمایت کا الزام عائد کرتی رہی ہے جبکہ پاکستان ان صرف تین ملکوں میں سے ایک تھا، جس نے 1996ء میں بننے والی طالبان کی حکومت کو سرکاری سطح پر تسلیم کیا تھا۔

پاکستان کے سابق فوجی سربراہ اور سابق صدر پرویز مشرف نے حال ہی میں اس بات کا اقرار کیا تھا کہ طالبان کی حمایت افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کی ’بھارت نواز پالیسیوں‘ کی وجہ سے کی جاتی رہی تھی۔ لیکن نئے افغان صدر اشرف غنی کے اقتدار میں آنے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری پیدا ہوئی ہے اور افغان صدر نے چند روز پہلے ہی یہ کہا تھا کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے پاکستانی کوششوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔

افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے رواں ہفتے کے آغاز میں یہ اشارہ دیا تھا کہ طالبان کے ساتھ بہت جلد مذاکرات کا آغاز ہو سکتا ہے۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات سے متعلق اس پیش رفت کے بعد امریکا کا یہ اعلان سامنے آیا کہ وہ افغانستان سے اپنے فوجیوں کے انخلا کا عمل سست کرنے پر غور کر رہا ہے۔