1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کے حملے، بھارتی بینکار کابل چھوڑنے پر مجبور

افسر اعوان4 جون 2015

وکلاء اپنے دفاتر چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں، اسکول میں بم کے خطرے کے باعث لڑکیاں گھروں پر رہتی ہیں اور بھارتی بینکار کابل چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ یہ صورتحال کابل میں طالبان کے بڑھتے حملوں کے باعث ہے۔

https://p.dw.com/p/1Fbeq
تصویر: REUTERS/Omar Sobhani

طالبان کی طرف سے کیے جانے والے دہشت گردانہ حملوں کا زیادہ تر نشانہ غیر ملکی اور حکومتی اہلکار ہیں۔ افغانستان کے دارالحکومت کابل کے لیے عسکریت پسندوں کی طرف سے حملوں کے خطرات نئی بات نہیں ہیں۔ 35 لاکھ کی آبادی والا یہ شہر 2001ء میں امریکی حملے کے نتیجے میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے کبھی بھی پُر سکون نہیں رہا۔ تاہم گزشتہ ماہ کے دوران حکومتی اہلکاروں اور غیر ملکیوں پر کیے جانے والے خوفناک حملوں کے بعد لوگ پریشان ہیں کہ طالبان کی طرف سے ہر سال موسم بہار کے آغاز کے ساتھ ہی شروع ہونے والے حملے اس برس کس قدر خوفناک ثابت ہوں گے اور نیٹو فورسز کی واپسی کے بعد افغان سکیورٹی فورسز طالبان کے خلاف کس حد تک کار گر ثابت ہو سکیں گی۔

کابل میں کام کرنے والے ایک مستغیث (وکیل) محمد عارف شاھیم کا خبر رساں ادارے روئٹرز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’حکومت ہر حوالے سے اپنا کنٹرول کھو رہی ہے۔‘‘

ان کی ساتھی ماہرہ فیض اُس خوفناک لمحے کو یاد کرتی ہیں، جب مئی میں وزارت انصاف کی عمارت کی پارکنگ میں ایک کار بم دھماکا ہوا۔ اس دھماکے کے بعد افواہ پھیل گئی کہ برقعوں میں ملبوس طالبان عمارت میں داخل ہو گئے ہیں: ’’ہم فوری طور پر باہر نکلے اور چند منٹوں میں ہی عمارت خالی کر دی گئی۔‘‘

ماہرہ اب ہفتے میں محض دو مرتبہ دفتر جاتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اگر مزید حملے ہوتے ہیں تو وہ اپنی یہ ملازمت چھوڑ دیں گی، ’’میں ان حالات میں کام نہیں کر سکتی۔‘‘

گزشتہ ہفتے کابل کے مرکزی حصے میں واقع لڑکیوں کے ایک اسکول کے بارے میں یہ خبر پھیل گئی کہ وہاں شدت پسندوں نے ایک بم نصب کر دیا ہے، جس کی وجہ سے اسکول کو فوری طور پر خالی کر دیا گیا۔ اس کے بعد سے بعض والدین اپنی بچیوں کو اسکول ہی نہیں بھیج رہے۔

اقوام متحدہ کے افغانستان کے لیے مشن UNAMA کے مطابق رواں برس کے پہلے چار مہینوں کے دوران ریکارڈ 2937 سویلین دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ ان میں سے 974 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ تعداد گزشتہ برس اسی عرصے کے مقابلے میں 16 فیصد زیادہ بنتی ہے۔

رواں برس کے پہلے چار مہینوں کے دوران ریکارڈ 2937 سویلین دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ ان میں سے 974 افراد ہلاک ہوئے
رواں برس کے پہلے چار مہینوں کے دوران ریکارڈ 2937 سویلین دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ ان میں سے 974 افراد ہلاک ہوئےتصویر: Reuters/M. Ismail

31 مئی کو ایک مغربی سکیورٹی کنسلٹنٹ کی طرف سے بتایا گیا کہ گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں برس کابل میں خودکش حملوں اور دیگر عسکری کارروائیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

روئٹرز کی طرف سے مرتب کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق مئی کے دوران شہر میں کم از کم چھ بڑے حملے ہوئے، جن میں 19 افراد ہلاک جبکہ 80 سے زائد زخمی ہوئے۔گزشتہ برس طالبان کی طرف سے سالانہ حملوں کا آغاز 12 مئی کو کیا گیا تھا اور پہلے ماہ کے دوران کابل میں دو بڑے حملے ہوئے تھے۔

امریکی حکام کے مطابق رواں برس ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں افغان فورسز اور طالبان دونوں کے جانی نقصان میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ تاہم طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ طالبان عسکریت پسندوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ دوسری طرف افغان وزارت دفاع کے ایک ترجمان کے مطابق گزشتہ برس کے مقابلے میں افغان فورسز کی ہلاکتوں کی شرح میں تین سے 3.5 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔