1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کی پیش قدمی کے تناظر میں تاجکستان میں بڑی جنگی مشقیں

23 جولائی 2021

پڑوسی ملک افغانستان میں بڑھتے عدم استحکام سے تاجکستان کی حکومت بھی پریشان ہے اور کسی غیر متوقع صورت حال سے نمٹنے کے لیے عسکری تیاریاں شروع کر دی ہیں۔

https://p.dw.com/p/3xu1u
Militärübungen in Tadschikistan
تصویر: Olga Balashova/ITAR-TASS/imago images

ایک ایسے وقت جب پڑوسی ملک افغانستان میں عسکریت پسند طالبان گروپ کی تیزی سے پیش قدمی جاری ہے، تاجکستان کی فوج نے 22 جولائی جمعرات کو بڑے پیمانے پر حربی مشقوں کی شروعات کی۔ اس مشق میں سوا دو لاکھ سے بھی زیادہ تاجک فوجیوں نے حصہ لیا۔

تاجکستان کے صدر امام علی رحمن کی درخواست پر دو لاکھ تیس ہزار سے بھی زیادہ تاجک فوجی جنگی مشق کے لیے جمع ہوئے تھے۔ اس جنگی مشق میں متحرک فوجیوں کے علاوہ، ریزرو دستے، فضائیہ اور توپ خانوں کے دستوں نے بھی حصہ لیا۔

افغانستان میں عدم استحکام پر تاجکستان کی تشویش

تاجک صدر امام علی رحمن نے جمعرات کے روز ٹی وی پر اپنے خطاب کے دوران جنگی مشق کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا، ''ہمارے پڑوسی ملک افغانستان، خاص طور پر اس کے شمالی علاقوں میں جو ہماری سرحد سے متصل ہیں، صورت حال مستقل غیر یقینی اور کافی پیچیدہ بنی ہوئی ہے۔'' 

ان کا مزید کہنا تھا، ''صورت حال دن بدن اور ہر لمحہ مزید پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔'' انہوں نے فوج سے سرحدوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے تیار رہنے کو کہا۔ اس سے قبل انہوں نے افغان۔ تاجک سرحد پر 20 ہزار اضافی فوج تعینات کرنے کے احکامات دیے تھے۔

Militärübungen in Tadschikistan
تصویر: Olga Balashova/ITAR-TASS/imago images

چند روز پہلے ہی کی بات ہے اسی سرحد پر طالبان کے ساتھ شدید لڑائی کے بعد کچھ افغان فورسز پناہ کے لیے تاجکستان میں داخل ہو گئے تھے جنہیں بعد میں طیارے کے ذریعہ کابل بھیجا گیا۔  

حالیہ کچھ دنوں سے طالبان افغانستان میں تیزی سے پیش قدمی کر رہے ہیں اور انہوں نے دفاعی نکتہ نظر سے اہم سرحدی گزر گاہوں پر اپنا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ طالبان،حکومتی فورسز کے خلاف یہ جیت اس وقت حاصل کر رہے ہیں جب امریکا اور نیٹو کے دوسرے اتحادی

 ممالک افغانستان سے افواج کو مکمل طور پر واپس بلا رہے ہیں۔

طالبان کا بڑا دعوی

جمعرات کے روز ہی روسی میڈیا کے ساتھ بات چیت میں طالبان نے دعوی کیا کہ اس وقت افغانستان کے 90 فیصد حصے پر ان کا کنٹرول ہے۔ تاہم اس دعوے کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے روس کے ایک سرکاری میڈیا ادارے 'آر آئی اے نووستی'  سے بات چیت میں کہا، ''تاجکستان، ترکمانستان اور ایران کے ساتھ افغانستان کی سرحدوں، یا یوں کہیں کہ 90 فیصد سرحدی علاقے ہمارے کنٹرول میں ہیں۔''

Tadschikistan  | Russisches Militär auf Trainigsgelände nahe afghanischer Grenze
تصویر: Olga Balashova/TASS/dpa/picture alliance

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے افغانستان میں اسی ماہ ایک سروے کیا تھا جس کے مطابق طالبان نے ملک کے نصف سے زیادہ تقریبا ً400 اضلاع پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ تاہم طالبان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اس تنازعے کا سیاسی حل چاہتے ہیں اور بات چیت جاری رکھیں گے۔

اطلاعات کے مطابق روس آئندہ ماہ ازبکستان اور تاجکستان کے ساتھ فوجی مشقیں کرنے والا ہے اور اس کے ساتھ تاجکستان میں وہ اپنے فوجی اڈے پر فوجیوں کی تعیناتی کا از سر نو جائزہ لے گا اور اس میں مزید فوجیوں کے ساتھ جنگی ساز و سامان میں اضافے کا امکان ہے۔

روس افغانستان سے امریکا کے فوجی انخلا کی مخالفت کرتا رہا ہے اور اس کے بقول اس اقدام سے خطے میں عدم استحکام میں اضافہ ہوگا۔

 مغربی ممالک کے بعض مبصرین کا بھی کہنا ہے کہ جس طرح طالبان کی پیش قدمی جاری ہے بہت جلدی طالبان ملک پر قابض ہو سکتے ہیں اور پھر وہ اپنے پرانے طریقے سے حکومت کرنے کی کوشش کریں گے جس سے انسانی حقوق کی پامالی ہو سکتی ہے۔

امریکی صدر نے گزشتہ اپریل میں افغانستان سے گیارہ ستمبر تک مکمل انخلا ء کا اعلان کیا تھا اور اب تک تقریباً نوے فیصد امریکی فوج کا انخلا مکمل ہو چکا ہے۔ تاہم طالبان کی پیش قدمی سے طرح طرح کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ افغانستان ایک بار پھر طالبان کے ہاتھوں میں چلا جائے۔

ص ز/ ج ا  (روئٹرز، اے ایف پی، اے پی)

افغان افواج اور طالبان جنگجوؤں کے مابین جھڑپ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں