طالبان میں پیدا ہوتی تقسیم
15 مئی 2012افغانستان میں سرگرم شدت پسند تنظیم طالبان کے اہم رکن آغا جان معتصم سے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (AP) نے انٹرویوکیا ہے۔ اس انٹرویو میں معتصم نے طالبان کے اندر پائی جانے والی اس تقسیم کا حوالہ دیا، جو غیر ملکی قوتوں کے ساتھ مذاکرات اور مخالفت کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ یہ انٹرویو دو روز قبل اتوار کے روز نیوز ایجنسی نے ریلیز کیا ہے۔ معتصم کو کابل حکومت اور غیر ملکی فوجی قوتوں کی جانب سے قائم مبینہ کوئٹہ شوریٰ کا اہم رکن بھی خیال کیا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل وہ ایک حملے میں بال بال بچا تھا۔ وہ شدید زخمی حالت میں کئی ہفتے رہا۔ ان دنوں وہ علاج کی غرض سے ترکی گیا ہوا ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس نے اس کا انٹرویو ترکی سے ریکارڈ کیا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس (AP) کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اعتدال پسند طالبان لیڈر آغا جان معتصم کا کہنا تھا کہ اس وقت دو قسم کے طالبان موجود ہے، ان میں ایک وہ ہیں، جو یہ سمجھتے ہیں کہ غیر ملکی ان کے مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں جبکہ دوسرے گروپ کا خیال ہے کہ یہ غلط ہے اور غیر ملکی فوجیں صرف ان کے ساتھ لڑائی کے لیے موجود ہیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ ٹیلیفون پر معتصم نے اپنا انٹرویو ریکارڈ کروایا۔
آغا جان معتصم نے نیوز ایجنسی پر واضح کیا کہ طالبان اور طالبان کی لیڈر شپ میں سے اکثریت وسیع نظریات پر مبنی ایک حکومت کی خواہش رکھتے ہیں۔ معتصم کے خیال میں اس حکومت میں سارے افغانستان کے عوام کی نمائندگی ہونے کے علاوہ یہ اسلامی طرز کی ہو جیسی کی دوسرے اسلامی ملکوں میں حکومتیں قائم ہیں۔ اپنے انٹرویو میں معتصم نے امریکا اور برطانیہ پر تنقید سے بھی گریز نہیں کیا۔
آغا جان معتصم نے مجموعی طور پر مغربی اقوام کے افغانستان کے بارے میں طرز عمل پر تنقید کرتے ہوئے خاص طور پر امریکا اور برطانیہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان دونوں ملکوں نے بنیاد پرست مذہبی تحریک کے اندر اعتدال پسندوں کو پنپنے میں کوئی قابل ذکر کردار ادا نہیں کیا اور نہ ہی طالبان کو ایک سیاسی قوت کے طور تسلیم کرتے ہوئے اسے شناخت دی۔ معتصم کے خیال میں امریکا اور برطانیہ کی جانب سے وعدوں سے پھرنے کے عمل نے بھی شدت پسند طالبان کو مضبوط اور اعتدال پسندوں کو کمزور کیا۔
اپنے انٹرویو میں حال ہی میں ہلاک کردیے جانے والے افغان لیڈر ارسلا رحمانی کی ہلاکت پر بھی افغان لیڈر نے افسوس کا اظہار کیا۔ مقتول رحمانی طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل کو تیز کرنے میں فعال تھے۔ وہ طالبان حکومت میں نائب وزیر تعلیم بھی رہ چکے تھے۔ معتصم نے مقتول رحمانی کو قوم پرست قرار دینے کے علاوہ کہا کہ وہ احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔
آغا جان معتصم نے اپنے انٹرویو میں افغانستان کو درپیش کئی مسائل پر اظہار خیال کیا۔ انہوں نے امریکی قید میں سینکڑوں طالبان قیدیوں کی رہائی کا ذکر بھی کیا۔ مئی میں امریکی شہر شکاگو میں ہونے والی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی سمٹ کے شرکاء کے لیے اپنے پیغام میں کہا کہ وہ افغانستان کی بہتری کے لیے فیصلے کریں نہ کہ تشدد میں اضافے کی مناسبت سے کوئی بات کریں۔ انہوں نے نیٹو سربراہ اجلاس کے شرکاء سے لڑائی بند کرنے کا بھی کہا۔ معتصم کے مطابق افغانستان تباہ ہو چکا ہے اور لوگ بےگھری اور مہاجرت پر مجبور ہیں۔
ah/ab (AP)