1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان اور امريکا کے درميان امن مذاکرات کا تازہ دور شروع

29 جون 2019

امريکی وزير خارجہ نے حال ہی ميں بيان ديا تھا کہ افغانستان ميں قيام امن کے ليے ستمبر کے اوائل تک کسی معاہدے کی اميد ہے۔ کيا افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے تازہ ترين دور ميں اس ضمن ميں کوئی پيش رفت متوقع ہے؟

https://p.dw.com/p/3LKsU
Afghanistan | Friedensgespräche mit Taliban
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Qatar Ministry of Foreign Affairs

امريکا اور افغان طالبان کے درميان امن مذاکرات کا ساتواں دور قطر کے دارالحکومت دوحہ ميں ہفتہ انتيس جون سے شروع ہو گيا ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبيح اللہ مجاہد نے خبر رساں ادارے ايسوسی ايٹڈ پريس سے بات چيت ميں بات چيت کے آغاز کی تصديق کر دی ہے۔ مذاکرات در اصل آج صبح شروع ہونا تھے تاہم يہ کچھ تاخير کے ساتھ سہ پہر کے وقت شروع ہوئے۔ مذاکرات ميں امريکی وفد کی قيادت زلمے خليل زاد کر رہے ہيں، جو افغانستان ميں قيام امن کے ليے خصوصی امريکی مندوب ہيں۔

جنگ زدہ ملک افغانستان ميں قيام امن کے ليے طالبان اور امريکی نمائندگان کے مابين اس سے قبل مذاکرات کے چھ ادوار منعقد ہو چکے ہيں تاہم يہ دور اس ليے خصوصی اہميت کا حامل ہے کيونکہ امريکی وزير خارجہ مائيک پومپيو نے چند روز قبل ہی يہ اميد ظاہر کی تھی کہ فريقين کے مابين يکم ستمبر تک کوئی امن معاہدہ طے ہو سکتا ہے۔

گزشتہ ادوار ميں افغانستان سے امريکی افواج کے انخلاء اور وہاں داعش جيسی ديگر شدت پسند قوتوں کو پناہ گاہ فراہم نہ کيے جانے کی يقين دہانی پر بات چيت مرکوز رہی۔ امريکی وفد اور طالبان دونوں ہی نے تصديق کر دی ہے کہ ان معاملات پر اتفاق رائے ہو گيا ہے تاہم عملدرآمد کے طريقہ ہائے کار پر کام ابھی باقی ہے۔ امريکی وزير خارجہ پومپيو اور افغانستان کے ليے خصوصی امريکی مندوب خليل زاد يہ کہہ چکے ہيں کہ مستقل جنگ بندی اور افغان قيادت کے ساتھ براہ راست بات چيت بھی امن معاہدے کا کليدی حصہ ہيں تاہم اب تک طالبان کابل حکومت کے ساتھ ساتھ براہ راست بات چيت کو بھی منہ کرتے آئے ہيں اور جنگ بندی کو بھی۔

خليل زاد آج شروع ہونے والے مذاکرات کے دور سے قبل گزشتہ چند ہفتوں سے خطے ميں ہی موجود تھے۔ اس دوران وہ صدر اشرف غنی کے علاوہ کئی افغان علاقائی رہنماؤں سے بھی ملتے رہے۔ ان کی مسلسل کوشش ہے کہ طالبان اور کابل حکومت کو براہ راست مذاکرات پر آمادہ کيا جائے۔

ع س / ع ح، نيوز ايجنسياں