1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان اسکولوں کی بندش کا تہیہ کیے ہوئے، کابل حکومت کا الزام

11 جون 2012

افغان حکومت نے الزام لگایا ہے کہ طالبان عسکریت پسند 2014ء سے پہلے ملک میں تمام اسکول بند کروانے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں۔ اس لیے وہ ایسی کارروائیاں کر رہے ہیں جن کی مدد سے طلبا و طالبات کو تعلیمی اداروں سے دور رکھا جا سکے۔

https://p.dw.com/p/15C30

افغانستان کے مختلف حصوں میں عسکریت پسندوں کی طرف سے تعلیمی اداروں خاص کر لڑکیوں کے اسکولوں پر کیے جانے والے حملوں کے نتیجے میں طلبا و طالبات مجبور ہو گئے ہیں کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے خود مختلف اقدامات کریں۔ یہ اقدامات کابل حکومت نے غیر نصابی سرگرمیوں کے طور پر متعارف کرائے ہیں۔ کابل حکومت کا الزام ہے کہ طالبان باغیوں نے تعلیمی اداروں پر حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ حکومت کے مطابق باغی بظاہر یہ تہیہ کیے ہوئے ہیں کہ افغانستان سے 2014ء میں غیر ملکی فوجوں کے انخلاء سے پہلے وہ ملک میں تمام تعلیمی اداروں کو عملی طور پر بند کروا دیں۔

Bundeswehr Afghanistan ISAF
افغانستان سے 2014ء میں غیر ملکی فوجوں کا انخلا ہو جائے گاتصویر: AP

افغان اسکولوں میں طلبا کی طرف سے اپنی سلامتی کے لیے جو اقدامات کیے جا رہے ہیں، ان کی ایک مثال کابل کے ایک مشہور اسکول میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اس اسکول کا نام حبیبیہ ہائی اسکول ہے جہاں ہر روز مختلف کلاسوں کے بچے اپنی اپنی باری پر اسکول کے دروازے پر محافظ کے فرائض انجام دیتے ہیں۔

انہی بچوں میں سے ایک سولہ سالہ عبدالفتح بھی ہے۔ جب وہ ہر چند ہفتے بعد اسکول کے دروازے پر ایک اور طالب علم کے ساتھ مل کر گارڈ کے فرائض انجام دیتا ہے تو وہ بھی اسکول میں داخل ہونے والے تمام بچوں اور مہمانوں کی جسمانی تلاشی لیتا ہے۔ اس اسکول کے مین گیٹ پر اندر آنے والوں کی جسمانی تلاشی لینے والے طلبا کے علاوہ قریب ہی دو اور نوجوان طلبا ایک میز کے سامنے دو کرسیاں رکھے بیٹھے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس ایک رجسٹر ہوتا ہے جس میں وہ ہر آنے جانے والے کا نام اور پتہ نوٹ کرتے ہیں۔

سولہ سالہ عبدالفتح کے والدین کو تشویش ہے کہ اگر کابل کے اس اسکول پر عسکریت پسندوں نے حملہ کیا تو ان کا بیٹا ان طلبا میں شامل ہو گا جو سب سے پہلے نشانہ بنیں گے۔ لیکن عبدالفتح کے والدین کے پاس اپنے بیٹے کو اسکول بھیجنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اس لیے کہ اسکول نہ جانے کی صورت میں اسے گھر پر رہنا پڑے گا اور وہ بھی ان ہزار ہا افغان بچوں میں شامل ہو جائے گا جو اپنا تعلیمی سلسلہ منقطع کر چکے ہیں۔ ایسے بچوں کو بعد میں بڑی محنت اور معمولی ملازمتیں کر کے عملی زندگی میں اپنی جگہ بنانا پڑتی ہے۔ بغیر کسی باقاعدہ اور مکمل تعلیم کے یہ کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔

کابل کے حبیبیہ ہائی اسکول کے قریب ہی پولیس کی ایک چیک پوسٹ بھی قائم ہے۔ لیکن اس اسکول کے چھ بچوں اور ایک استاد پر مشتمل ایک گروپ کو ہر روز اسکول کی گراؤنڈ کا گشت کرنا پڑتا ہے تاکہ کسی بھی مشکوک نقل و حرکت کا بروقت پتہ چلایا جا سکے۔

افغانستان میں اب تک عسکریت پسندوں نے تعلیمی اداروں پر جو حملے کیے ہیں ان کے نتیجے میں بہت سے اسکول جلائے جا چکے ہیں۔ کئی واقعات میں شدت پسندوں نے اسکولوں میں پینے کے پانی میں زہر بھی ملا دیا۔ اس طرح زہر ملا پانی پینے کے بعد سینکڑوں بچوں کو علاج کے لیے ہسپتالوں میں بھی داخل کرانا پڑا۔ عسکریت پسندوں نے تعلیمی اداروں کو بند کروانے کے لیے بہت سے اساتذہ پر حملے بھی کیے۔

افغانستان میں اسکولوں میں زیر تعلیم بچیاں اب اکثر اکیلے کی بجائے گروپوں کی صورت میں اسکول جاتی ہیں۔ اس طرح یہ امکان بہت کم ہوتا ہے کہ عسکریت پسند ان بچیوں کو انفرادی طور پر ہراساں کر سکیں۔

افغانستان کے صرف ایک صوبے تخار میں گزشتہ دو مہینوں کے دوران لڑکیوں کے چار اسکولوں پر حملے کیے جا چکے ہیں۔ ان واقعات میں وہاں پینے کے پانی میں زہر ملا دیا گیا۔ اب تعلیمی اداروں کے بہت سے سربراہان کو ہدایت کی جا چکی ہے کہ وہ ہر روز اسکول ختم ہونے کے بعد بھی دیر تک وہاں موجود رہیں۔ اس کے علاوہ ہر روز اسکول شروع ہونے سے پہلے یہ بات بھی یقینی بنائی جائے کہ پینے کا پانی زہر آلود نہ ہو۔

امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قائم امریکن سکیورٹی پروجیکٹ کے افغانستان اور وسطی ایشیا کے امور کے ماہر جَوشُوآ فاؤسٹ کہتے ہیں کہ طالبان اسکول بند کروانے کی جو کوششیں کر رہے ہیں، وہ بھی ان کی طرف سے کنٹرول حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے۔

ij / mm / Reuters