1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ضلع خیبر میں خواتین پولیس افسران کی مخالفت کیوں؟

فریداللہ خان، پشاور
6 اگست 2024

قیام پاکستان کے بعد ضلع خیبر میں پہلی مرتبہ خواتین کو قانونی معاونت فراہم کی جا رہی ہے۔ نوجوان اسے خوش آئند اقدام قرار دے رہے ہیں جبکہ بعض قبائلی عمائدین نے اس کے خلاف احتجاج کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4jB2i
علاقے میں عائلی مسائل ہوتے ہیں جبکہ جائیداد کی تقسیم کا مسئلہ سرفہرست ہے
علاقے میں عائلی مسائل ہوتے ہیں جبکہ جائیداد کی تقسیم کا مسئلہ سرفہرست ہےتصویر: DW/D. Baber

خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے ضلع خیبر میں خواتین کو برابری کی بنیاد پر حقوق دینے اور انہیں فوری انصاف تک رسائی فراہم کرنے کے لیے چار پولیس اہلکاروں کو اسٹیشن ہاؤس آفیسرز اور لائن آفیسرز تعینات کیا ہے۔ اسی سلسلے میں ضلع خیبر کی افغان سرحد سے متصل تحصیل لنڈی کوتل میں کرسچین کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی مہک پرویز مسیح کو ایڈیشنل اسٹیشن ہاؤس آفیسر تعینات کیا گیا ہے۔

دیگر تین خواتین پولیس افسران کو باڑہ، جمرود اور علی مسجد کے علاقوں میں تعینات کیا گیا ہے۔ ضلع خیبر کے تعلیم یافتہ افراد اس اقدام کو خوش آئند قرار دیے رہے ہیں۔ تاہم بعض قبائلی عمائدین اسے اپنے روایات کے منافی قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ دوسری جانب پولیس کے اعلیٰ افسران پُر اُمید ہیں کہ ان خواتین کی موجودگی کی وجہ سے قبائلی خواتین کھل کر اپنے مسائل خواتین آفیسرز کو بتا سکیں گی۔

ڈی ڈبلیو نے خیبر ایجنسی کےعبدالاعظم شنواری سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ''سابق قبائلی ملک اور مشیران سمیت ایک بڑی تعداد میں مقامی لوگ اس فیصلے سے ناخوش ہیں۔ تاہم بعض تعلیم یافتہ نوجوانوں اسے تبدیلی کا آغاز قرار دے رہے ہیں۔‘‘

علاقے میں عائلی مسائل ہوتے ہیں جبکہ جائیداد کی تقسیم کا مسئلہ سرفہرست ہے
علاقے میں عائلی مسائل ہوتے ہیں جبکہ جائیداد کی تقسیم کا مسئلہ سرفہرست ہےتصویر: Fareed Khan/AP Photo/picture alliance

 ان کا مزید کہنا تھا کہ علاقے میں عائلی مسائل ہوتے ہیں جبکہ جائیداد کی تقسیم کا مسئلہ سرفہرست ہے، ''ایسے میں جب خواتین شکایت کے لیے پولیس کے پاس جائیں گی تو ساتھ ہی عدالتوں کے چکر بھی کاٹنے پڑیں گے۔ خواتین کو جیل اور حوالات جانا پڑے گا اور بعض کیسز میں انہیں ہھتکڑیوں میں عدالتوں میں پیش کیا جائے گا، جو قبائلی روایات کے خلاف ہے۔‘‘

کے پی کے ماڈل پولیس اسٹیشن، عورتوں کے لیے خواتین پولیس عملہ

لیکن پولیس کے اعلیٰ افسران پُر اُمید ہیں کہ اس سے خواتین کے مسائل کم ہوں گے اور ان میں اپنے حق کے لیےآواز اٹھانے کا حوصلہ بڑھے گا۔ ضلع خیبر کے ضلعی پولیس آفیسر سلیم عباس کلاچوی کا کہنا تھا، ''قبائلی خواتین کو اب ان کے علاقے میں تعینات خواتین پولیس افسران سے رابطہ کرنے میں آسانی ہو گی۔ یہ خواتین محکمہ پولیس میں خدمات انجام دے چکی ہیں اور ہم پُر اُمید ہیں کہ اس اقدام سے قبائلی ضلع خیبر میں خواتین سے متعلق مسائل کے حل میں مدد ملے گی۔‘‘

سابق قبائلی عمائدین کی مخالف

ضلع خیبر کے سابق ملک اور عمائدین نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اور انسپکٹر جنرل پولیس سے مطالبہ کیا ہے کہ مذکورہ اقدام قبائلی رسم و رواج اور روایات کے خلاف ہے، لہٰذا یہ فیصلہ واپس لیا جائے۔ ان قبائلی عمائدین نے دھمکی دی ہے کہ اگر حکومت نے یہ فیصلہ واپس نہ لیا تو وہ احتجاج کی کال دیں گے۔     

پشاور پولیس کے سربراہ (کیپیٹل سٹی پولیس چیف) قاسم علی خان
پشاور پولیس کے سربراہ (کیپیٹل سٹی پولیس چیف) قاسم علی خانتصویر: Faridullah Khan

 دوسری جانب قبائلی خواتین نے حکومت کے اس فیصلے کو نئی نسل کے لیے خوش آئند قرار دیا ہے۔ ڈوئچے ویلے نے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ناہید آفریدی سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، '' جس طرح ہم خواتین ڈاکٹرز اور دیگر شعبوں میں خواتین کو لانے کا مطالبہ کرتے ہیں، اسی طرح ہر شعبے میں خواتین کو آگے آنے کا موقع دیا جائے۔ ایسی خواتین معاشرے کے لیے رول ماڈل ہیں اور ہمیں ان کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے۔‘‘

اس سے قبل بعض دیگر سابق قبائلی اضلاع میں خواتین پولیس اہلکار کام کر چکی ہیں۔ انضمام کے بعد ضلع کرم میں پہلی بار سمرن عامرکو ایڈیشنل اسٹیشن ہاؤس آفیسر تعینات کیا گیا تھا۔ اسی ضلع میں صوفیہ مسیح کو خواتین ڈیسک کی انچارج بنایا گیا تھا۔ جب اس سلسلے میں ڈوئچے ویلے نے پشاور پولیس کے سربراہ (کیپیٹل سٹی پولیس چیف) قاسم علی خان سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ''ان علاقوں میں لیڈی پولیس کا ہونا ضروری تھا، خواتین کو اس لیے تعینات کیا گیا ہے کہ مقامی خواتین کھل کر اپنے مسائل بتا سکیں۔‘‘

 ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے قبل دیگر اضلاع میں تین خواتین کو بحثیت سب انسپکٹرز اور ایڈیشنل اسٹیشن ہاؤس آفیسرز تعینات کیا جا چکا ہے۔

خیبر پختونخوا کی پرعزم خواتین پولیس اہلکار