1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صومالی قزاقوں کے خلاف پہلی زمینی کارروائی

Imtiaz Ahmad15 مئی 2012

ایک بین الاقوامی بحری فورس نے صومالی قزاقوں کے خشکی پر موجود ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ قزاقوں کے حملوں کو محدود کرنے کے لیے یہ اپنی نوعیت کی پہلی کارروائی ہے۔

https://p.dw.com/p/14vr5
تصویر: AP

یورپی یونین کے بحری مشن کے ایک ترجمان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ بحریہ کے ہیلی کاپٹر نے آپریشن کی انتہائی احتیاط سے کی جانے والی منصوبہ بندی کے تحت قزاقوں کی کشتیوں کو نشانہ بنایا ہے۔ ترجمان کے مطابق یہ آپریشن صومالیہ کے علاقے Galmudug میں کیا گیا۔

مغربی دفاعی اتحاد نیٹو اور یورپی یونین کی طرف سے قزاقوں کے خلاف کارروائیاں ’انٹلانٹا مشن‘ کے تحت سن 2008 سے جاری ہیں، تاہم قرن افریقہ میں بحری قزاقوں کی سرکوبی کے لیے جاری مشن میں توسیع کا فیصلہ رواں برس مارچ میں کیا گیا۔ بحری قزاقوں نے اپنے اڈے سیاسی انتشار کے شکار صومالیہ میں قائم کر رکھے ہیں اور وہاں سے قزاقی کا نفع بخش کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مارچ میں ہونے والے فیصلے کے بعد ان قزاقوں سے سمندر کے علاوہ خشکی پر بھی نمٹا جائے گا لیکن صرف ساحل سمندر سے زیادہ سے زیادہ دو ہزار میٹر کے اندر اور وہ بھی صرف اور صرف فضا سے۔

EU-Mission Atalanta
یورپی یونین کی طرف سے قزاقوں کے خلاف کارروائیاں ’انٹلانٹا مشن‘ کے تحت سن 2008 سے جاری ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

یورپی یونین کے بحریہ مشن کے ترجمان ’ایڈمرل ڈونکان پوٹس‘ کا کہنا تھا، ’’ہمیں یقین ہے کہ ہماری ان کوششوں سے قزاقوں پر دباؤ بڑھے گا اور ان کی کارروائی میں مزید کمی واقع ہو گی۔‘‘

صومالی قزاقوں کی طرف سے بحری جہازوں کو عملے سمیت اغوا کر لیا جاتا ہے اور ان کی رہائی کے بدلے بھاری تاوان کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ یورپی یونین کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت قزاقوں نے آٹھ بحری جہاز اور ان کے عملے کے 235 ارکان کو یرغمال بنا رکھا ہے۔

امریکی بحریہ کے مطابق سن 2011 میں قزاقوں کی کارروائیوں میں دنیا کو سات بلین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

برطانیہ کی ارتھ فیوچر فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق 2006ء کے بعد سے2011ء تک بحری قزاقوں کی طرف سے لوٹ مار کی سولہ سو سے زائد کارروائیاں کی گئیں، جن میں 54 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ اس رپورٹ کے مطابق چوری اور ہائی جیکینگ کی 95 فیصد کارروائیوں کا ذمہ دار صومالی قزاقون کو تصور کیا جاتا ہے۔ بحری جہازوں کے اغوا کا سلسلہ 2005ء میں صومالیہ کے ساحلوں سے ہوا تھا اور اس کے بعد سے اب تک گہرے پانیوں میں ان کی یہ کارروائیاں جاری ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دنیا میں چلنے والے 10 فیصد سے زائد بحری جہازوں نے اپنے راستے تبدیل کر لیے ہیں۔

صومالی قزاقوں کی وارداتوں سے محفوظ رہنے کے لیے یورپی یونین اور امریکہ ساتھ ساتھ چین، بھارت، روس اور جاپان کی طرف سے بھی مشترکہ کوششوں کا آغاز کیا جا چکا ہے۔

ia/ai/AFP,AP