1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کئی ایشیائی ممالک کے سرکاری نقشے حکومتوں کے پروپیگنڈا ہتھیار

5 اگست 2020

پاکستان نے بھی کشمیر کے سرکاری نقشے کے حوالے سے وہی کام کیا۔ کئی ایشیائی ممالک کی حکومتوں کے بنوائے گئے وہ سرکاری نقشے دیکھنے والا کوئی بھی شخص اکثر حیران رہ جاتا ہے، جن میں اپنے ریاستی علاقے اصل سے بڑے دکھائے جاتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3Yqyq
پاکستان اور بھارت کے سرکاری نقشوں کے وہ حصے جن میں جموں کشمیر کے متنازعہ علاقے کو اپنا اپنا حصہ دکھایا گیا ہے

دنیا کے دیگر ممالک میں اسکولوں کے بچوں کے طرح بھارت میں بھی طلبا و طالبات کو ان کے ملک کا جغرافیہ پڑھایا جاتا ہے۔ بچے یہ سیکھتے ہیں کہ ان کے ملک کا نقشہ کیسا ہے، وفاقی ریاستیں کون کون سی ہیں اور بڑے بڑے شہر اور دریا کہاں کہاں ہیں۔ اس دوران بچوں کو بھارت کے 'سر‘ کے بارے میں بھی بتایا جاتا ہے۔

جغرافیائی طور پر بھارت کے 'سر‘ سے مراد ریاست جموں کشمیر ہے، جس کا ایک حصہ بھارت کے زیر انتظام ہے، دوسرا پاکستان کے کنٹرول میں ہے اور ایک تیسرے چھوٹے سے حصے پر اپنی ملکیت کا دعویٰ چین بھی کرتا ہے۔ جموں کشمیر سے جغرافیائی طور پر مراد آج بھی زیادہ تر ریاست جموں کشمیر کا وہی علاقہ ہے، جو برطانوی نوآبادیاتی دور میں کشمیر کے مہاراجہ کے دور میں بھی تھا۔

اب اسی حوالے سے پاکستان میں کشمیر سے متعلق سرکاری نقشے میں اسلام آباد حکومت نے بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر کو بھی شامل کر کے ایک نئی لیکن متنازعہ بحث چھیڑ دی ہے، جس پر پاکستان کے اندر سے بھی تنقید کی جا رہی ہے۔

دوران تعلیم بچوں سے چھپائے جانے والے حقائق

بھارت میں ہوتا یہ ہے کہ جموں کشمیر کی ملکیت سے متعلق جغرافیائی تنازعے کا بھارتی اسکولوں میں بچوں کو دی جانے والی تعلیم میں کوئی ذکر نہیں ملتا۔ ساتھ ہی اس میں اس حقیقت کا بھی کوئی تعلیمی نصابی ذکر نہیں ملتا کہ مبینہ طور پر 'بھارت کی ملکیت‘ ریاست جموں کشمیر کے وسیع تر علاقے تو دراصل پاکستان اور چین کے انتظام میں بھی ہیں۔

Indische Soldaten an der Grenze zwischen Indien und Pakistan
کشمیر میں کنٹرول لائن کے قریب گشت کرتے بھارتی فوجی دستےتصویر: Getty Images/AFP/R. Bakshi

بھارتی اسکولوں میں کشمیر سے متعلق یا جغرافیے کی تعلیم کے دوران جو کچھ بھی پڑھایا جاتا ہے، اس میں یہ بات بھی بالکل ہی نظر انداز کر دی جاتی ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے کئی باشندے تو دراصل اس ریاست کی آزادی اور خود مختاری کے خواہش مند بھی ہیں یا پھر کشمیر کے اس حصے کا پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔

سچائی کا انکشاف بیرونی ممالک میں شائع شدہ نقشوں سے

بہت سے بھارتی شہریوں کو یہ بات بالغ ہونے اور انگریزی زبان میں جغرافیے کی غیر ملکی کتابیں پڑھنے کے بعد پتا چلتی ہے کہ انہیں اسکولوں میں بھارت کا جو نقشہ پڑھایا جاتا رہا ہے، وہ زمینی حقائق کی عکاسی کرتا ہی نہیں۔ دوسری طرف بھارت میں تو یہ قانون بھی نافذ ہے کہ اس ملک کا کوئی بھی ایسا نقشہ تیار کرنا، جو سرکاری طور پر تیار کیے گئے قومی نقشے کے مطابق نہ ہو، ایک قابل سزا جرم ہے۔

اسی طرح پاکستان میں بھی اس موضوع کے ساتھ بہت سے جذبات جڑے ہوئے ہیں۔ سرکاری طور پر تیار کردہ جموں کشمیر کے نقشے میں پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر کے حصے کو بھی پاکستانی ریاست کے ساتھ ہی دکھایا جاتا ہے ۔ اب اسے پھیلا کر اس میں بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر کو بھی شامل کر دیا گیا ہے۔

Infografik Karte Grenzen in Pakistan EN

لیکن بھارت کے برعکس پاکستان میں اتنا تو کیا ہی جاتا ہے کہ جموں کشمیر کے متنازعہ حصے کی غیر واضح حیثیت کے پیش نظر اس علاقے اور اس کی سرحدوں کی نشاندہی 'متنازعہ علاقے‘ کے طور پر کی جاتی ہے۔ اسی طرح اس متنازعہ علاقے کی سرحدوں کے بارے میں بھی پاکستان میں سرکاری طور پر تیار کردہ نقشے پر یہ لکھا ہوتا ہے: ''سرحد غیر متعینہ۔‘‘

قوم پسندی اور ریاستی نقشے

قومی نقشوں کو حکومتی پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرنے کی مثالیں ایشیا میں صرف بھارت اور پاکستان ہی میں نظر نہیں آتیں۔ دیگر ایشیائی ممالک کی حکومتیں بھی اپنے اپنے ملکوں کے ایسے نقشے تیار کراتی ہیں، جن میں دکھائے گئے ایسے ممالک کے جملہ ریاستی علاقے ویسے نہیں دکھائے جاتے، جیسے وہ حقیقت میں ہوتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی عالمی سطح پر جغرافیائی معلومات کے انتظام کی ذمے دار ماہرین کی کمیٹی کے ایک بانی رکن اور انٹرنیشنل کارٹوگرافک ایسوسی ایشن کے سربراہ ٹم ٹرینر کہتے ہیں، ''نقشہ کوئی بھی ہو، وہ بہت ہی طاقت ور ہوتا ہے، اپنے اندر لیے ہوئے پیغام کی وجہ سے۔ اس لیے کہ جو کوئی بھی کوئی سرکاری نقشہ دیکھتا ہے، بالعموم یہی سوچتا ہے کہ اس نقشے میں دی گئی معلومات درست ہی ہوں گی۔ اس شعبے میں تبدیلیوں اور دانستہ ترامیم کی مثال بھی ویسی ہی ہے، جیسے کوئی اعداد و شمار میں دانستہ بڑی ہیرا پھیری کر دے۔‘‘

نقشے 'طاقت کے لیے آلہ کار‘

جرمنی کی کارٹوگرافی کی ایک معروف خاتون ماہر اُوٹے شنائیڈر نے تو اس بارے میں ایک کتاب بھی لکھی ہے، جس کا عنوان ہے: 'نقشوں کی طاقت‘۔ ان کا کہنا ہے کہ غیر جانبدارانہ اور حقیقت پسندانہ بنیادوں پر تیار کردہ نقشے تو کہیں ہوتے ہی نہیں۔ شاید ہی کوئی نقشہ ایسا ہوتا ہو، جس کے ساتھ کسی نہ کسی طرح کی خاص اقدار کو جوڑ نہ دیا گیا ہو۔ اُوٹے شنائیڈر کے الفاظ میں، ’’سرکاری نقشے تو طاقت اور اختیارات کے لیے آلہ کار ہوتے ہیں۔‘‘ اقوام متحدہ کو بھی اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ مختلف ممالک کی حکومتوں کی طرف سے تیار کرائے گئے قومی جغرافیائی نقشے اور ان سے متعلق امور کتنے حساس ثابت ہو سکتے ہیں۔

اسی لیے اقوام متحدہ کی کارٹوگرافی کے ماہرین کی انتظامی کمیٹی کی طرف سے جتنے بھی نقشے شائع کیے جاتے ہیں، ان کے ساتھ واضح طور پر یہ عبارت بھی لکھی ہوتی ہے: ’’اس نقشے میں دکھائی گئی سرحدیں اور لکھے گئے نام اور ان کے لیے استعمال کردہ اصطلاحات کا مطلب یہ نہیں کہ اقوام متحدہ کی طرف سے ان کی باقاعدہ طور پر منظوری بھی دی گئی ہے یا انہیں تسلیم کر لیا گیا ہے۔‘‘

گوگل میپس

انٹرنیٹ سرچ انجن گوگل کی طرف سے گزشتہ چند برسوں سے اس شعبے میں بہت گراں قدر کام کیا جا رہا ہے۔

گوگل کی نقشوں سے متعلق  آن لائن سروس گوگل میپس کہلاتی ہے، جسے نہ صرف دنیا بھر میں عام صارفین استعمال کرتے ہیں بلکہ ان کے جغرافیائی اور سیاسی طور پر بہت بہتر اور قدرے درست ہونے کی وجہ سے انہیں بہت سے ماہرین، محققین اور صحافی اپنے پیشہ وارانہ کام کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔

 اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ جموں کشمیر اگرچہ جغرافیائی طور پر پاکستان، بھارت اور چین کے مابین ایک متنازعہ خطہ ہے، تاہم گوگل نے اس بارے میں اصل حقائق کافی حد تک واضح کر دیے ہیں۔

گوگل میپس پر دنیا بھر کے صارفین یہ دیکھ سکتے ہیں کہ کشمیر کے کسی بھی حصے میں کوئی عام شہری یا آن لائن صارف اس متنازعہ اور منقسم ریاست کے بھارتی حصے میں رہتا ہے، پاکستانی حصے میں یا پھر اس حصے میں جس پر چین اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے۔ گوگل میپس سے پہلے بین الاقوامی صارفین کے لیے اس طرح کی وضاحت ناممکن تھی۔

روڈیان ایبگ ہاؤزن (م م / ع ت)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں