’’صدمہ تو رہے گا البتہ غصّہ میں کمی آسکتی ہے‘‘
4 فروری 2009بھارت کا دورہ کرنے والے امن وفد میں ساوٴتھ ایشیاء فری میڈیا ایسوسیشن، SAFMA کے سیکرٹری جنرل امتیاز عالم بھی شریک تھے۔ وطن واپسی پر امتیاز عالم نے بھی اعتراف کیا کہ ممبئی حملوں کی وجہ سے بھارت میں بہت ناراضگی اور غصّہ ہے اور ساتھ ہی ممبئی ڈوسئیر کی تحقیقات کے حوالے سے پاکستان کی رپورٹ کا انتظار بھی۔’’وہ انتظار میں ہیں کہ پاکستان کی حکومت ممبئی ڈوسئیر کی صحیح تحقیقات کرے، حقائق کو چھپانے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر ایسا ہوگا تو اُن کے غصّے میں کمی آئے گی۔ ممبئی حملوں کا صدمہ تو ہے البتہ غصّے میں کمی آسکتی ہے۔‘‘
پروفیسر اے ایس نیئر بھی امن وفد میں شریک تھے۔ ممبئی حملوں کے بعد بھارت میں پائے جانے والے عام تاثر کو پروفیسر نائیر نے کچھ یوں بیان کیا۔
’’موڈ یہ تھا کہ وہ کہتے تھے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ کوئی حل نہیں ہے لیکن سب کو شکایت تھی کہ پاکستان اپنے فرائض صحیح طرح سے سرانجام نہیں دے رہا ہے، اور وہ کام نہیں کررہا ہے جو اسے کرنا چاہیے۔‘‘
اُدھر بھارتی دارلحکومت نئی دہلی میں منگل کو دو روزہ ایشیائی سیکیورٹی کانفرنس کا آغاز ہوا، جس میں خطّے میں سلامتی کے مختلف پہلووٴں پر غور و خوض کیا جارہا ہے۔ اس کانفرنس میں دُنیا کے مختلف ملکوں سے آئے ساٹھ سے زائد ماہرین شریک ہیں۔ مزکورہ کانفرنس کے پہلے روز ممبئی حملوں اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بھارت۔پاک کشیدگی کا موضوع چھایا رہا۔ کانفرنس میں شریک ماہرین کے مابین ممبئی حملوں کے بعد بھارت کے رویے پر اختلافات کھل کر سامنے آئیں۔ کانفرنس میں شریک دفاعی امور کے ماہر پرشانت ڈکشت نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے بھارت کے موٴقف کو درست قرار دیا۔
گُزشتہ برس چھبیس نومبرکو بھارتی شہر ممبئی کے دو فائیوسٹار ہوٹلوں اور ایک یہودی مرکز پر شدت پسندوں کے حملوں کے بعد بھارت اور پاکستان کے تعلقات کافی کشیدہ ہوگئے، اور اب ان حملوں کی تحقیقات کے حوالے سے ایک دوسرے پر الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پیر کو شہر ملتان کی بہاوٴ الدین ذکریہ یونیورسٹی میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ممبئی حملوں کے بعد بھارت نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو تنہا کرنے کی بھرپورکوشش کی لیکن وہ اپنے ان عزائم میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ قریشی نے کہا کہ اس صورتحال کا مقابلہ کرنا پاکستان کے لئے ہرگز آسان نہیں تھا لیکن اپنے ہمسایہ ملکوں کے تئیں پاکستان کی دوستانہ خارجہ پالیسی کے ذریعے تناوٴ میں کمی لانے کی مخلص کوششیں کی گئیں۔ پاکستان نے ممبئی حملوں کی تحقیقات میں بھارت کو اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا اور بین الاقوامی برادری، بالخصوص امریکہ اور برطانیہ، نے روایتی حریفوں کے درمیان کشیدگی کم کرنے کی کوششیں کیں۔ ایسی کوششوں کے باوجود دونوں ملکوں کے سیاسی رہنماوٴں کے مابین الفاظ کی جنگ جاری ہے۔
پاکستان کی طرف سے ممبئی حملوں کی تحقیقات میں تعاون کی یقین دہاینوں کے بعد بھارت نے بالآخر ممبئی ڈوسئیر پاکستان کے حوالے کردیا تھا۔ پاکستان نے ڈوسئیر پر ابتدائی تحقیقات مکمل کی اور یہ دعویٰ کیا کہ ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی پاکستان میں نہیں ہوئی تھی۔
ممبئی حملوں کے فوراً بعد بھارت نے یہ الزام عائد کیا کہ ان حملوں کی منصوبہ بندی پاکستان میں ہوئی۔ پاکستان نے جواب میں کہا کہ ثبوتوں کی غیر موجودگی میں بھارت کو الزامات عائد نہیں کرنے چاہییں۔
دونوں ملکوں کے درمیان سن دو ہزار چار سےجامع امن مذاکراتی عمل جاری تھا،جس کے نتیجے میں باہمی تعلقات خوشگوار ہونا شروع ہوگئے تھے لیکن ممبئی حملوں نے پل بھر میں سب کچھ بدل کے رکھ دیا۔ بھارتی ٹیم کا دورہء پاکستان منسوخ ہوا اور بھارتی حکمرانوں نے پاکستان کی جانب اپنا طرز عمل سخت کرلیا۔
بھارتی وزیر خارجہ پرنب مکھرجی نے منگل کو ایک مرتبہ پھر اپنے اس بیان کو دہرایا کہ بھارت کو ابھی تک پاکستان کی طرف سے سرکاری طور پر ممبئی ڈوسئیر پر کوئی رپورٹ نہیں ملی ہے۔ ’’حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ممبئی حملوں کے بعد پاکستان کو ڈوسئیر دیا، پاکستان نے اس پر تحقیق مکمل کرنے کی بات کی لیکن ابھی تک ہمیں اس کے نتائج اور پیش رفت کے تعلق سے سرکاری طور پر کوئی جواب نہیں دیا گیا ہے۔‘‘
بھارتی وزیر داخلہ پی چدم برم نے نئی دہلی میں ابھی حال ہی میں اسی طرح کا بیان دیا تھا لیکن قومی سلامتی کے مشیر ایم کے نارائنن نے بھارتی نجی ٹیلی ویژن چینل کے پروگرام ’ڈیویلز ایڈوکیٹ‘ میں کہا کہ پاکستان نے ممبئی ڈوسئیر سے متعلق ایک دو نکات کے سلسلے میں وضاحت طلب کی تھی جو اُسے فراہم کی گئی۔ اس طرح بھارتی وزراء اور قومی سلامتی کے مشیر کے درمیان ممبئی ڈوسئیر پر تضاد کھل کر سامنے آیا۔
ممبئی کے دہشت گردانہ حملوں میں 170 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور اسرائیل کے بعض شہری بھی شامل تھے۔