1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صدام کے آخری لمحات کا گواہ

افسراعوان27 دسمبر 2013

موافق الربیعی اپنے دفتر میں بیٹھے ہیں اور ان کے پیچھے عراق کے سابق حکمران صدام حسین کا ایک مجسمہ رکھا ہے اور اس کے ساتھ وہ رسہ بھی موجود ہے، جس سے اس آمریت پسند حکمران کو پھانسی دی گئی تھی۔

https://p.dw.com/p/1AhPG
تصویر: David Furst/AFP/Getty Images

موافق الربیعی عراق کے سابق ’نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر‘ ہیں اور انہوں نے 2006ء میں صدام حسین کو پھانسی دیے جانے کے عمل کی نگرانی کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ صدام حسین نے آخری لمحے تک کسی کمزوری اور لاچاری کا اظہار کیا اور نہ ہی کسی شرمندگی یا افسوس کا۔

موافق کے مطابق اگر صدام حسین کو ایک قاتل کہا جائے تو درست ہے، ایک مجرم کہا جائے تو بھی درست اور اگر ایک سفاک شخص کہا جائے تو یہ بھی درست ہے مگر وہ آخری لمحے تک مضبوط رہے۔

صدام نے جولائی 1979ء سے مارچ 2003ء تک اس وقت تک عراق پر حکومت کی، جب امریکی سربراہی میں عراق پر حملہ کیا گیا تھا
صدام نے جولائی 1979ء سے مارچ 2003ء تک اس وقت تک عراق پر حکومت کی، جب امریکی سربراہی میں عراق پر حملہ کیا گیا تھاتصویر: AFP/Getty Images

’’میں نے ان (صدام) کا دروازے پر استقبال کیا۔ ہمارے ساتھ کوئی اور اندر داخل نہیں ہوا، کوئی غیر ملکی اور کوئی امریکی نہیں۔‘‘ موافق الربیعی نے یہ بات خبر رساں ادارے اے ایف پی سے ایک انٹرویو میں بتائی۔ یہ انٹرویو بغداد کے شمالی علاقے کاظمیہ میں لیا گیا، جو اس جیل کے قریب ہی واقع ہے، جہاں صدام کو سات برس قبل پھانسی دی گئی تھی۔

’’انہوں نے سفید شرٹ اور اس پر جیکٹ پہن رکھی تھی۔ وہ بالکل نارمل اور مطمئن تھے اور میں نے ان میں خوف کی کوئی علامت نہیں دیکھی۔ یہ بات ظاہر ہے کہ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ میں کہوں کہ صدام حسین بے ہوش ہو گئے تھے یا انہیں پھانسی سے قبل نشہ آور ادویات دی گئی تھیں، مگر میں جو حقائق بتا رہا ہوں، یہ تاریخ کے لیے ہیں۔‘‘

’’میں نے ان سے کسی تاسف کا اظہار نہیں سنا، نہ ہی میں نے ان سے خدا سے رحم یا معافی مانگنے کی دعا سنی۔‘‘ ربیعی مزید بتاتے ہیں، ’’ایک شخص، جو مرنے کے قریب ہوتا ہے، وہ عام طور پر کہتا ہے کہ اے خدا میرے گناہ معاف کر دے، میں تیرے پاس آ رہا ہوں، لیکن انہوں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی۔‘‘

عراق پر دو دہائیوں تک حکمرانی کرنے والے صدام حسین کو 1982ء میں دوجیل کے علاقے میں 148 شیعہ افراد کو ہلاک کرنے اور انسانیت کے خلاف جرائم ثابت ہونے پر سزائے موت دے دی گئی تھی۔ انہوں نے جولائی 1979ء سے مارچ 2003ء تک اس وقت تک عراق پر حکومت کی، جب امریکی سربراہی میں عراق پر حملہ کیا گیا تھا۔ انہیں اسی برس دسمبر میں امریکی فورسز نے ایک فارم ہاؤس سے برآمد کیا تھا، جہاں وہ ایک تنگ سے گڑھے میں چھپے ہوئے تھے۔ انہیں تین برس بعد عدالتی کارروائی کے نتیجے میں 30 دسمبر 2006ء کو پھانسی دے دی گئی تھی۔

موافق ربیعی کے مطابق، ’’جب میں انہیں اندر لایا تو ان کو ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں اور ان کے ہاتھوں میں قرآن کا ایک نسخہ تھا۔ میں انہیں جج کے کمرے میں لے گیا، جہاں انہیں ان کے جرائم کی فہرست پڑھ کر سنائی گئی، جس کے جواب میں صدام یہ دہراتے رہے، امریکا مردہ باد، اسرائیل مردہ باد، فلسطین ہمیشہ زندہ رہے گا اور فارس کے ساحر کے لیے موت۔‘‘

صدام کی پھانسی پر عملدرآمد عراقی وزیراعظم نوری المالکی اور اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش کے درمیان ہونے والی ایک ویڈیو کانفرنس کے بعد کیا گیا
صدام کی پھانسی پر عملدرآمد عراقی وزیراعظم نوری المالکی اور اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش کے درمیان ہونے والی ایک ویڈیو کانفرنس کے بعد کیا گیاتصویر: AP

ربیعی کے مطابق اس کے بعد انہیں اس کمرے میں لے جایا گیا، جہاں انہیں پھانسی دی جانا تھی۔ ربیعی کے مطابق انہوں نے پھانسی دینے کے لیے لیور کھینچا مگر اس نے کام نہیں کیا، جس کے بعد ایک اور شخص نے لیور کھینچا، جس سے وہ پھانسی پر جھُول گئے۔‘‘

ربیعی کے مطابق پھانسی پر جھولنے سے قبل صدام نے کلمہ شہادت پڑھا، ’’میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد۔۔۔ انہوں نے شروع کیا ہی تھا کہ وہ پھانسی پر جھول گئے یہ مکمل کیے بغیر کہ ’’اللہ کے رسول ہیں‘‘۔

ربیعی کے مطابق صدام کی پھانسی پر عملدرآمد عراقی وزیراعظم نوری المالکی اور اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش کے درمیان ہونے والی ایک ویڈیو کانفرنس کے بعد کیا گیا، جس میں بُش نے وزیراعظم سے دریافت کیا، ’’آپ اس مجرم کے ساتھ کیا کریں گے؟‘‘ مالکی نے جواب دیا، ’’ہم اسے لٹکائیں گے‘‘، جس پر بُش نے اپنے ہاتھ کا انگوٹھا بلند کیا، جو ان کی طرف سے اس فیصلے کی توثیق تھی۔