1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

صدارتی انتخابات، مصر کے لیے ایک تاریخی دن

Imtiaz Ahmad23 مئی 2012

مصر پر طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے حسنی مبارک کی معزولی کے ایک برس سے زیادہ عرصے بعد آج اس ملک میں پہلی مرتبہ صدارتی انتخابات منعقد ہو رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/150QT
تصویر: Reuters

آج بدھ اور کل جمعرات کو ہونے والی پہلے مرحلے کی ووٹنگ میں پچاس ملین رائے دہندگان ملک کے نئے سربراہِ مملکت کا انتخاب کریں گے۔ چونکہ تیرہ صدارتی امیدواروں میں سے کسی کو بھی اِس پہلے مرحلے میں کامل اکثریت ملنے کی توقع نہیں ہے، اِس لیے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے چوٹی کے دو امیدواروں کے درمیان فیصلہ دوسرے انتخابی مرحلے میں ہو گا، جو سولہ اور سترہ جون کو شیڈیول ہے۔ فراعین مصر کی سر زمین کا آئندہ صدر کون ہوگا، اس کا اعلان اکیس جون کو کیا جائے گا۔ قریب 82 ملین نفوس پر مشتمل اس ملک میں مجموعی طور پر 13 ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں۔ مصر کے ستائیس صوبوں میں یہ پولنگ اسٹیشن مقامی وقت کے مطابق رات آٹھ بجے تک کھلے رہیں گے۔

Ägypten Präsidentenwahl
مطابق ووٹنگ کا آغاز مقامی وقت کے مطابق صبح آٹھ بجے ہواتصویر: Reuters

ملک میں اس وقت برسر اقتدار فوجی کونسل نے اسے جمہوریت کی جانب ’پہلا قدم‘ قرار دیتے ہوئے عوام الناس سے انتخابات میں بھرپور شرکت کی اپیل کی ہے۔ فوجی کونسل نے یہ بھی اپیل کی ہے کہ انتخابات کے نتائج کو ’کھلے دل‘ کے ساتھ تسلیم کیا جائے۔ حکومت کی جانب سے 49 مقامی غیر سرکاری تنظیموں اور تین غیر ملکی غیر منافع بخش گروپوں کو انتخابات کی نگرانی کی اجازت دی گئی ہے۔

Ägypten Präsidentenwahl
ووٹنگ کے آغاز سے پہلے ہی پولنگ اسٹیشنوں پر رائے دہندگان کی لمبی قطاریں لگی ہوئی تھیںتصویر: Reuters

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ووٹنگ کا آغاز مقامی وقت کے مطابق صبح آٹھ بجے ہوا، جبکہ آغاز سے پہلے ہی پولنگ اسٹیشنوں پر رائے دہندگان کی لمبی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ دارالحکومت قاہرہ کے مُضافات میں ووٹ ڈالنے کے انتظار میں کھڑے ابراہیم نامی ایک شخص کا کہنا تھا کہ وہ کینسر کا مریض ہے مگر وہ اپنے بچوں کے لیے ووٹ ڈالنے آیا ہے تاکہ وہ ایک ’آزاد معاشرے‘ میں زندگی بسر کر سکیں۔ اٹھاون سالہ اس سرکاری ملازم کا کہنا تھا کہ وہ بہتر اور انسانوں کی طرح زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔

اسی طرح بحیرہ روم کے ساحلی شہر اسکندریہ کے ساٹھ سالہ عیسائی رہائشی عبدالملک سِلوا کا کہنا تھا کہ یہ معجزے سے کم نہیں کہ انہیں ووٹ ڈالنے کی اجازت دی جا رہی ہے، ’’یہ ایک خوبصورت احساس ہے۔‘‘

مصر میں آئندہ منتخب ہونے والا صدر اس ملک کا پانچواں سربراہ مملکت ہوگا۔ اس ملک میں سن 1952 میں بغاوت کے نتیجے میں شہنشاہیت کا خاتمہ کر دیا گیا تھا اور تب سے یہاں اصل میں فوج ہی کی حکمرانی چلی آ رہی ہے۔ اپنے تین پیشروؤں انور سادات، جمال عبدالناصر اور محمد نجیب کی طرح حسنی مبارک کا تعلق بھی فوج ہی سے تھا۔

مصر کی فوجی کونسل نے اعلان کیا ہے کہ وہ اب اقتدار میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی لیکن یہ بھی غیر واضح ہے کہ انتخابات کے بعد وہ اپنی اتھارٹی کو کس طرح برقرار رکھے گی۔

ia/hk (AFP,AP,dpa)