شیکسپیئر کی 450 ویں سالگرہ
23 اپریل 2014جرمنی میں بھی سب سے زیادہ ولیم شیکسپیئر ہی کے شاہکاروں کو اسٹیج پر پیش کیا گیا ہے۔ رائنر ویئرٹس جرمن شہر نوئیس میں قائم ’شیکسپیئر تھیٹر‘ کے ساتھ ساتھ اس انگریز ڈرامہ نگار کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے منظم کیے گئے فیسٹیول کے بھی انچارج ہیں۔ وہ زندگی، موت، نفرت، محبت اور نیکی اور بدی جیسے موضوعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ شیکسپیئر کے ’موضوعات ہر دَور میں، ہر ملک میں اور ہر ثقافت میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں‘۔
ویئرٹس کے ایماء پر 1991ء میں لندن میں قائم شیکسپیئر تھیٹر ’گلوب تھیٹر‘ ہی کی طرز پر جرمن شہر نوئیس میں بھی ایک تھیٹر ہاؤس تعمیر کیا گیا اور پہلی مرتبہ شیکسپیئر فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا۔ پہلے سال چھ ڈرامے اسٹیج کیے گئے جبکہ آج کل ان کی سالانہ تعداد 32 تک پہنچ چکی ہے۔
شیکسپیئر کی طویل روایت
گلوب تھیٹر خاص انداز سے تعمیر کیا گیا ہے۔ اس میں 480 نشستیں کچھ اس انداز سے نصب ہیں کہ کوئی بھی شخص اسٹیج سے دَس میٹر سے زیادہ دور نہیں ہوتا۔ ویئرٹس کہتے ہیں:’’اس طرح کے تھیٹر میں بالکل ایک پریشر کُکر کی طرح کا ماحول بن جاتا ہے۔‘‘
صرف نوئیس میں ہی نہیں بلکہ پورے جرمنی میں شیکسپیئر کے ساتھ محبت ایک طویل روایت کا حصہ ہے۔ جرمن شہر میونخ کے انگریزی زبان و ادب کے ماہر ٹوبیاز ڈوئرنگ کہتے ہیں:’’ہمارے تھیٹر کو دراصل شکسپیئر سے تحریک ملی۔‘‘ جرمن کلاسیکی ڈرامہ نگار اٹھارویں صدی سے اس انگریز ادیب سے متاثر ہونا شروع ہو گئے تھے۔
جرمن تاریخ کے ساتھ مماثلتیں
1864ء میں شیکسپیئر کی 300 ویں سالگرہ کے موقع پر گوئٹے اور شِلر کے شہر وائیمار میں جرمن شیکسپیئر سوسائٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ ٹوبیاز ڈوئرنگ آج کل اس سوسائٹی کے چیئرمین ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اُس دور میں شیکسپیئر کے تاریخی ڈرامے جرمنی میں خاص طور پر مقبول تھے کیونکہ اُن میں جرمن تاریخ سے ملتے جلتے واقعات کی جھلک موجود تھی۔
1989ء میں جرمنی کے اتحاد سے فوراً پہلے کے دَور میں شیکسپیئر کی مقبولیت عروج پر تھی۔ سابق کمیونسٹ جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک کے ہدایتکار ہائنر ملّر اُن دنوں اپنے تھیٹر پراجیکٹ ’ہیملٹ، ہیملٹ مشین‘ کی تیاریوں میں مصروف تھے، جب اُنہوں نے مشرقی برلن کے الیگزانڈر اسکوائر میں ایک بڑے مظاہرے کی اپیل جاری کی۔ ڈوئرنگ اُن دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اُن کے ڈرامے میں ہیملٹ کا کردار ادا کرنے والے اداکار اُلرِش میوہے اُن دنوں جرمن اتحاد کے سب سے بڑے علمبردار تھے۔ چند ہی روز بعد دیوارِ برلن گر چکی تھی۔
عوام کے لیے تفریح
شیکسپیئر نے صرف انقلابیوں اور دانشوروں کو ہی اپنی گرفت میں نہیں لیا بلکہ بقول ڈوئرنگ شیکسپیئر کی کامیابی کا نسخہ یہ تھا کہ وہ اپنے ڈراموں کے ذریعے عوام کے وسیع تر طبقات سے مخاطب ہوئے: ’’اُن کا تھیٹر درباری نہیں بلکہ عوامی تھا۔‘‘ اُنہوں نے اپنی تحریروں کے ساتھ عوام کو تفریح فراہم کی۔
شیکسپیئر کے ڈرامے پوپ کلچر کی ابتدائی شکل تھے، جس نے بعد ازاں فلمی صنعت پر بھی اپنے اثرات مرتب کیے۔ ڈوئرنگ کہتے ہیں کہ شیکسپیئر کے بغیر ہالی وُڈ کا بھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ابتدائی دور کی فلمیں اس انگریز ڈرامہ نگار ہی کے شاہکاروں سے متاثر ہو کر بنائی گئیں۔ دنیا بھر میں اب تک شیکسپیئر کے ڈراموں پر مبنی کوئی 420 فلمیں بنائی جا چکی ہیں یعنی کسی اور ادیب کو اتنا نہیں فلمایا گیا، جتنا کہ شیکسپیئر کو۔ شیکسپیئر کی مقبولیت میں مستقبل میں بھی کوئی کمی آتی دکھائی نہیں دیتی۔