1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شی جن پنگ کی تیسری مدت کے لیے چین کا صدر بننے کی راہ ہموار

22 اکتوبر 2022

کمیونسٹ پارٹی کی کانگریس کے بعد توقع ہے کہ شی جن پنگ تیسری مدت کے لیے چین کے صدر بنیں گے جس کا اعلان مارچ میں قانون سازی کے اجلاس کے دوران کیا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/4IXun
تصویر: Ju Peng/Xinhua/AP/picture alliance

چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی نے ہفتے کے روز ’گریٹ ہال آف دی پیپلز‘ میں اپنی کانگریس کا اختتام پارٹی آئین میں متعدد ترامیم کے ساتھ کیا۔ ان ترامیم سے صدر شی جن پنگ بطور چینی رہنما مضبوط ہوں گے اور بیجنگ کا خیال ہے کہ یوں دنیا میں ملک کی حیثیت کو بھی تقویت ملے گی۔

ایک ہفتے تک جاری رہنے والی اس کانگریس میں 2300 مندوبین نے شرکت کی۔ کانگریس نے ملکی قیادت میں شی جن پنگ کی ’بنیادی پوزیشن‘مستحکم کر کے  ان کے لیے غیر معمولی طور پر تیسری میعاد کے لیے ملکی صدر بننے کی راہ ہموار کی۔

صدارت کی تیسری مدت کا باضابطہ اعلان مارچ میں سالانہ قانون سازی کے اجلاس کے دوران کیا جائے گا۔ سن 2018 میں شی جن پنگ نے صرف دو مرتبہ صدارتی عہدے کی حد کر کے مدت غیر معینہ کر دی تھی۔

مندوبین نے آئین میں تائیوان کی آزادی کی مخالفت کو بھی شامل کرنے کے لیے ووٹ دیا۔

چینی کمیونسٹ پارٹی کانگریس کے دوران اور کیا ہوا؟

مندوبین نے شی جن پنگ کی ’ورک رپورٹ‘ یعنی کانگریس کے موقع پر ان کے خطاب کی بھی توثیق کی۔

توقع کی جا رہی ہے کہ اتوار کے روز شی جن پنگ کو پارٹی کے اگلے جنرل سکریٹری کے طور پر نامزد کیا جائے گا، جس کے فورا بعد ہی نئی مرکزی کمیٹی کا پہلا اجلاس شروع ہو جائے گا۔

کانگریس کے دوران کچھ غیر متوقع فیصلے بھی سامنے آئے
کانگریس کے دوران کچھ غیر متوقع فیصلے بھی سامنے آئےتصویر: Li Xueren/AP

چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق پارٹی کے مندوبین نے نئی مرکزی کمیٹی کا انتخاب بھی کیا۔ کمیٹی میں تقریبا 200 ارکان شامل کیے گئے لیکن مکمل فہرست ظاہر نہیں کی گئی۔ یہ کمیٹی اگلے پانچ سال تک پارٹی کی قیادت کرے گی۔

مرکزی کمیٹی میں زیادہ تر اہم عہدے شی جن پنگ کے وفاداروں کو دیے گئے ہیں۔

کیا کانگریس میں کوئی خلاف توقع فیصلہ ہوا؟

ہفتہ بھر جاری رہنے والی کانگریس کے دوران کچھ غیر متوقع فیصلے بھی سامنے آئے ہیں۔

چین کے وزیر اعظم لی کی چیانگ، جو ملک میں دوسرے نمبر پر ہیں اور اقتصادی اصلاحات کے ایک اہم وکیل ہیں، ان چار سینئر عہدیداروں میں سے ایک ہیں جو اہم فیصلہ ساز ’پولٹ بیورو اسٹینڈنگ کمیٹی‘ میں اپنا عہدہ برقرار نہیں رکھ پائے۔ بعد ازاں انہیں نو منتخب مرکزی کمیٹی سے بھی نکال دیا گیا۔

کانگریس کے آخری روز جب میڈیا ’گریٹ ہال آف دی پیپل‘ میں داخل ہوا تو کمیونسٹ پارٹی کے سابق جنرل سکریٹری ہو جن تاؤ کو بظاہر ان کی مرضی کے خلاف پوڈیم سے اتار کر باہر لے جایا جا رہا تھا۔ آئینی ترامیم پر ووٹنگ سے قبل پیش آنے والے اس واقعے کو مبصرین نے غیر معمولی قرار دیا۔

ہو جن تاؤ اگرچہ کانگریس کے دوران صدر شی کے ساتھ بیٹھے دکھائی دیے لیکن ان کا شمار صدر کے حامیوں میں نہیں ہوتا۔ وہ ایک ایسے دھڑے سے تعلق رکھتے ہیں جو ’اجتماعی قیادت‘ کا حامی ہے۔

چین کانگریس میں کیا پیغام دینا چاہتا تھا؟

شی جن پنگ نے اپنی پارٹی کے ارکان پر زور دیا کہ وہ آنے والے جغرافیائی سیاسی چیلنجوں کے لیے خود کو تیار کریں۔

انہوں نے چین کو ’بلیک میل کرنے، اس پر قابو پانے اور ناکہ بندی کرنے کی بیرونی کوششوں‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 'بین الاقوامی منظرنامے میں زبردست تبدیلیاں‘ ہو رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''ہم نے اپنے قومی مفادات کو مقدم رکھا ہے۔‘‘

کانگریس کے اختتامی پروگراموں میں سے ایک سے خطاب کرتے ہوئے شی جن پنگ نے کہا، ’’جدوجہد کرنے کی ہمت کریں، جیتنے کی ہمت کریں۔‘‘

ش ح/  (اے پی، اے ایف پی)

کیا چین عالمی خوراک کے بحران کو حل کرے گا؟