شکست کے ذمہ دار افغان رہنما اور فوج ہيں، امریکی صدر
17 اگست 2021کابل کے صدارتی محل پر طالبان کے جنگجوؤں کے قبضے پر عالمی طاقتیں اب بھی صدمے میں ہیں۔ اب صرف دارالحکومت کا ہوائی اڈہ ہی امریکا کے کنٹرول میں رہ گیا ہے۔ امریکا، جرمنی اور دیگر ملکوں کے فوجی طیارے حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے سے لوگوں کے انخلاء میں مصروف ہیں، جہاں سے افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد غیر ملکی اور افغان شہری ملک سے کسی نہ کسی طرح نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس دوران عالمی رہنماؤں کی طرف سے افغان عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار، طالبان کی مذمت اور طالبان کے متنازعہ نظریات کی تائید کرنے والوں کو تنبیہ سے متعلق بیانات سامنے آ رہے ہیں۔
بائیڈن نے فوجی انخلاء کے اپنے فیصلے کا دفاع کیا
امریکی صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے سلسلے میں ان پر اور ان کی انتظامیہ پر ہونے والی شدید نکتہ چینی کا پیر کے روز ایک پریس کانفرنس میں جواب دیا۔ انہوں نے کہا کہ افواج کی واپسی کے حوالے سے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان پر قائم رہنا ایک 'درست فیصلہ‘ تھا۔ بائیڈن نے کہا، ”افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کا فیصلہ درست تھا، فیصلے پر کوئی شرمندگی نہیں۔ میں جانتا ہوں اس فیصلے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنوں گا۔" بائنڈن کا مزيد کہنا تھا، ”بیس برس کے بعد میں سمجھ چکا ہوں کہ افواج کے انخلاء کے لیے اس سے بہتر کوئی اور وقت نہیں تھا۔"
’سقوط کابل‘، اب انتہا پسندانہ بیانیے کو تقویت ملے گی
جو بائیڈن نے کہا ہے کہ وہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے اپنے فیصلے پر مکمل طور پر قائم ہیں اور انہوں نے امریکیوں کے ساتھ کیا وعدہ پورا کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکا کے چار صدور افغانستان کی جنگ دیکھ چکے ہیں اور وہ یہ ذمہ داری پانچویں صدر کو منتقل نہیں کریں گے۔
افغان فوج کو لڑنے کی ہمت نہ دے سکے، بائیڈن
امریکی صدر نے کہا کہ افغانستان کو تبدیل کرنا کبھی بھی امریکا کا مشن نہیں تھا۔ ”افغانستان میں ہمارا واحد اہم قومی مفاد آج بھی وہی ہے جو ہمیشہ رہا ہے۔ امریکا پر دہشت گردانہ حملوں کی روک تھام۔ ہمارا مقصد القاعدہ کا خاتمہ اور اسامہ بن لادن کو پکڑنا تھا اور ہم اس میں کامیاب رہے۔"
جو بائیڈن نے افغانستان کی موجودہ صورت حال کے لیے افغان قیادت پر نکتہ چینی کی۔ انہوں نے کہا کہ صدر اشر ف غنی اور قومی مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے طالبان کے ساتھ سیاسی تصفیے کے لیے ان کا مشورہ ماننے سے 'صاف انکار‘ کر دیا تھا۔
امریکی صدر نے افغان فوج کی صلاحیتوں کی بھی نکتہ چینی کی۔ انہوں نے کہا،”آپ کیا چاہتے ہیں امریکی نسلوں کی مزید بیٹے بیٹیوں کو افغانوں اور افغان خانہ جنگی میں لڑنے کے لیے بھیجوں؟ جب حالات یہ ہوں کہ افغان فوج خود نہیں لڑے گی۔ کیا ایسا کرنا درست ہو گا؟ آرلنگٹن کے قومی قبرستان میں ختم نہ ہونے والی کتبوں کی کتنی قطاریں بنیں گی؟"
کابل سے لوگوں کا انخلا، جرمن فوجی مشن زیر بحث
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ 'طالبان کے خلاف لڑنے کے لیے امریکا نے افغان فوج کی ہر طرح سے معاونت کی، انہیں کے ساتھ ہر قسم کا تعاون کيا گیا، افغان فورسز پر اربوں ڈالر لگائے گئے، بہترین سامان مہیا کیا گیا، جو ہم نہ دے سکے وہ لڑنے کی ہمت تھی‘۔
انتہائی'تکلیف دہ صورتحال‘، میرکل
افغانستان میں تازہ ترین پیش رفت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اسے 'انتہائی تکلیف دہ صورت حال‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ان کروڑوں افغانوں کے لیے ایک ہولناک پیش رفت ہے جو ایک زیادہ آزاد سماج کے متمنی ہیں۔
میرکل نے کہاکہ افغانستان میں مہم اتنی کامیاب نہیں رہی جتنی کہ امید کی گئی تھی۔ انہوں نے افغان مشن کے دوران ہلاک ہونے والے جرمنی کے 59 فوجیوں اور زخمی ہونے والے سینکڑوں جوانوں کو بھی یاد کیا اور کہا،”میں ان فوجیوں کے اہل خانہ کے غم اور تکلیف کے بارے میں سوچ رہی ہوں، جنہوں نے افغانستان میں لڑتے ہوئے اپنی جان دی۔"
جرمن چانسلر نے افغانستان سے بھاگنے والے لوگوں کی مدد کی ضرورت پر بھی زور دیا اور کہا کہ اگر ان کی مدد نہیں کی گئی تو ایک اور بڑا بحران پیدا ہو جائے گا۔ انہوں نے بالخصوص جرمن فوج کے ساتھ کام کرنے والے افغانوں کو پناہ اور مدد فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ انہوں نے پاکستان سمیت دیگر ملکوں کو بھی مدد فراہم کرنے کی بات کہی جہاں بڑی تعداد میں افغان مہاجرین جا سکتے ہیں۔
افغانستان کے معاملے پر بھارت شش و پنج میں مبتلا
میرکل کے ممکنہ جانشین کرسچین ڈیموکریٹ پارٹی کے سربراہ آرمن لاشیٹ نے بھی افغانستان کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بالکل واضح ہے کہ بین الاقوامی برداری کامیاب نہیں رہی۔ نیٹو کے قیام کے بعد سے یہ اس کی سب سے بڑی شکست ہے۔
عالمی برادری منقسم
صدر اشرف غنی کے ملک چھوڑ کر چلے جانے کے باوجود امریکا کا اصرار ہے کہ ابھی افغانستان میں اقتدار کی باضابطہ منتقلی نہیں ہوئی ہے۔ لیکن چین کا کہنا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے لیے تیار ہے۔
روس اور ایران نے بھی طالبان کی فتح کے بعد افغانستان میں صورت حال مستحکم ہونے کا خیر مقدم کیا ہے۔
ج ا / ع س (اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)