شمالی یورپ تیز رفتار طوفان کی زد میں
6 دسمبر 2013شمالی یورپ میں کئی عشروں بعد آنے والے اس شدید ترین طوفان کی وجہ سے جہاں ہزاروں افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے، وہیں ذرائع آمد و رفت بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ خدشہ ہے کہ یہ طوفان شدید سیلاب کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے برطانوی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ بحیرہ شمالی کے ساحلی علاقوں میں سیلاب کے خطرات کے تحت پندرہ ہزار افراد کو محفوظ مقامات پر پہنچا دیا گیا ہے۔ دوسری طرف جرمنی، ہالینڈ، بیلجیم، ڈنمارک اور سویڈن نے بھی ساحلی علاقوں میں ممکنہ سیلاب کے پیش نظر حفاظتی اقدامات کرنا شروع کر دیے ہیں۔
اسکاٹ لینڈ اور انگلینڈ کی ماحولیاتی ایجنسیوں کے مطابق (ساور)Xaver نامی اس طوفان کے ساتھ 228 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بہت تیز ہوائیں بھی چل رہی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ انگلینڈ کے مشرقی علاقے چھ عشروں بعد پہلی مرتبہ بری طرح متاثر ہو سکتے ہیں۔
برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اس قدرتی آفت سے نمٹنے کے لیے بنائی گئی ہنگامی کمیٹی کے ایک اجلاس میں ہدایات جاری کر دی ہیں کہ ممکنہ نقصانات سے بچنے کے لیے ہر ممکن وسائل بروئے کار لائے جائیں۔ یاد رہے کہ 1953ء میں شمالی یورپ میں آنے والے ایسے ہی ایک طوفان کے نتیجے میں کم ازکم دو ہزار افراد مارے گئے تھے۔
حکام نے بتایا ہے کہ آج بروز جمعہ ’ساور‘ کی شدت میں اضافہ ہو سکتا ہے، جس کے نتیجے میں مشرقی اور شمال مغربی ساحلی علاقوں میں سیلاب کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ سمندر میں اٹھنے والی اونچی لہروں کو رہائشی علاقوں تک پہنچنے سے روکنے کے لیے حفاظتی اقدامات کا سلسلہ گزشتہ رات بھی جاری رہا۔
اس صورتحال میں شمالی یورپ میں سینکڑوں مسافر پروازیں متاثر ہوئیں جبکہ متاثرہ علاقوں میں ریل اور بحری راستے بھی بند کر دیے گئے ہیں۔ اسی طرح سویڈن اور ڈنمارک کو ملانے والا یورپ کا سب سے بڑا پل بھی حفاظتی طور پر بند کر دیا گیا ہے۔
جرمن شہر ہیمبرگ بھی اس سمندری طوفان سے متاثر ہو سکتا ہے، جہاں اسکول بند کر دیے گئے ہیں اور شہریوں کو چوکنا رہنے کی تاکید کر دی گئی ہے۔ جمعرات کی رات جرمن حکام نے خبردار کیا کہ جمعے کی صبح تک سیلابی پانی کی سطح میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ہیمبرگ میں ماہر موسمیات آندریاس فریڈرش نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تیز ہواؤں کے خلاف خبردار کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا، ’’اس طوفان سے وابستہ خطرناک بات یہ ہے کہ اس کے ساتھ تیز ہوائیں بدستور چلتی رہیں گی اور وہ کئی گھنٹوں تک نہیں تھمیں گی۔‘‘ جرمنی کی وفاقی ٹرانسپورٹ اتھارٹی نے اپنا ہنگامی سینٹر فعال کر دیا ہے جبکہ شہریوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ صرف انتہائی ضرورت کے تحت اپنی گاڑیوں کو سڑکوں پر نکالیں۔