شاہی قلعہ لاہور: صدیوں پرانی تاریخی عمارتیں آج بھی سحر انگیز
لاہور کے شاہی قلعے کو مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے آج سے تقریباً چار سو سال قبل تعمیر کرایا۔ بعد ازاں مختلف ادوار ميں اس ميں توسيع ہوتی رہی۔ اکیس یادگاروں پر مشتمل یہ قلعہ مسلم اور ہندو فن تعمیر کا حسین امتزاج ہے۔
شاہ برج دروازہ
یہ شاہی قلعے کا مرکزی دروازہ ہے، جسے شاہی بیگمات کی آمد و رفت کے لیے سن 1631-1632 میں شاہ جہاں نے تعمیر کرایا۔ رنجیت سنگھ اور بعد میں برطانوی اہلکاروں نے اسے مرکزی دروازے کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا۔ دروازے کے خوبصورت نقش و نگار مدہم پڑنے کے باوجود آج بھی دل موہ لیتے ہیں۔
آرٹ وال
پندرہ سو دس فٹ لمبی یہ دیوار دنیا کی سب سے بڑی تصویری دیواروں میں سے ایک ہے۔ دلربا سجاوٹی چوکھٹے اور ان پر بنی رنگ برنگی تصاویر بہشت کا منظر پیش کرتی ہیں۔ اس پکچر وال پر ہاتھی، گھوڑے، پریاں، چرند پرند، پھول، پتے، درخت اور برتن دیکھے جا سکتے ہیں جو مغل عہد کے شاہی دربار اور طرز زندگی کی خوبصورت عکاسی ہے۔ یہ دیوار اکبر نے تعمیر کرائی لیکن اصل تزئین و آرائش شاہ جہاں کے دور میں ہوئی۔
ہاتھی پیر
یہ غیر معمولی چوڑی سیڑھیاں شاہ برج دروازے کے ساتھ بائیں جانب سے اوپر کو چڑھتی ہیں اور شیش محل لے جاتی ہیں۔ جیسا کہ اس کے نام سے واضح ہے یہ ہاتھیوں کے چڑھنے کے لیے بنائی گئی تھیں جن پر سوار ہو کر شاہی بیگمات اور شہزادیاں سیر کے لیے نکلا کرتی تھیں۔ ان سیڑھیوں کی تعداد اٹھاون ہے۔ ان کے ارد گرد کی دیواروں پر سکھ عہد میں ہونے والی گولہ باری کے نشانات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
دولت خانہ خاص و عام
قلعے کی قدیم ترین عمارتوں میں سے ایک اکبر کا دولت خانہ خاص و عام ہے۔ اس دو منزلہ عمارت کے اندرونی حصے میں چونے سے خوبصورت پھول بنائے گئے اور جگہ جگہ سونے کی ملمع کاری کی گئی جس کے نشانات آج بھی مسحور کرتے ہیں۔ اس کے مختلف کمروں میں سنگِ مرمر کی خوبصورت ہلالی محرابیں ہیں۔
دیوان خاص
ایسی عمارت جس کے بارہ دروازے ہوں اسے بارہ دری کہتے ہیں اور قلعے میں اس کی واحد مثال دیوان خاص ہے۔ دیوان عام کے برعکس یہ شاہی مہمانوں سے ملاقات کے لیے مخصوص تھا۔ اس کے خوبصورت ستون، دلکش محراب، دل ربا جالیاں، مختلف رنگوں کے سنگ مرمر کا فرش اور پچی کاری دل موہ لیتی ہے۔
دیوان عام
رعایا کی بادشاہ سے ملاقات کے لیے چالیس ستونوں پر مشتمل یہ دربار شاہ جہاں کے دور میں تعمیر کیا گیا تھا۔ دیوان عام کی عمارت رنجیت سنگھ کے بیٹے شیر سنگھ اور مہارانی چند کور کی خانہ جنگی کے دوران سن 1841 میں تباہ ہو گئی تھی۔ 1849 میں برطانوی راج ميں اسے پرانی بنیادوں پر دوبارہ کھڑا کر دیا۔
کالا برج
دیوان خاص کے ایک طرف تین منزلہ عمارت ہے جس کے اوپر برجی بنی ہے۔ اسے کالا برج کہا جاتا ہے جسے جہانگیر نے تعمیر کرایا۔ رنجیت سنگھ اور پھر برطانوی راج میں بھی یہ عمارت استعمال میں رہی جس کے برج میں بیٹھ کر سپاہی کسی ممکنہ حملہ آور سے خبردار رہنے کے لیے نگرانی کیا کرتے تھے۔
لال برج
ایک ایسی بلند عمارت ہر قلعے کی ضرورت ہوتی تھی جہاں بیٹھ کر پہرہ دار دور تک مشاہدہ کر سکیں۔ لال برج مغل عہد کی ایک ویسی ہی ایک عمارت ہے جس پر بنے سرخ رنگ کے نقش و نگار کی وجہ سے اسے لال برج کا نام دیا گیا۔ یہ شاہ جہاں کے عہد میں تعمیر ہوا۔
نولکھا بنگلہ
مشہور ہے کہ اس کا نام نولکھا اس لیے پڑا کہ مغل دور میں اس کی تعمیر پر نو لاکھ خرچ ہوئے تھے۔ یہ شیش محل کے ساتھ مغرب کی سمت میں خمدار چھت والا مستطیل کمرہ جس کے ستونوں میں چھوٹے چھوٹے آرائشی طاق بنے ہوئے ہیں اور ان طاقچوں میں سے ہر ایک میں تقریباً 102 چھوٹے قیمتی پتھروں کے ٹکڑوں کو جوڑ کر پھول دار شکل بنائی گئی ہے۔
شیش محل
آپ نے کوہ نور ہیرے کا بہت ذکر سنا ہو گا۔ یہی وہ عمارت ہے جہاں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اس کی نمائش کا بندوبست کر رکھا تھا۔ شیش محل مغل دور کی بہترین آرائشی عمارتوں میں سے ایک ہے جسے شاہجہان کے دور میں تعمیر کیا گیا۔ سنگ مرمر سے بنی اس عمارت میں شیشے کی نفاست اور مختلف رنگوں کی پچکاری دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ حصہ شاہی خاندان اور قریبی لوگوں کے لیے مختص تھا۔
احاطہ جہانگیری
شہنشاہ اکبر کی وفات کے بعد جہانگیر کو حکومت سنبھالتے ہی بہت سی بغاوتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران جہانگیر نے ایک سال تک لاہور میں قیام کیا اور قلعے میں جہانگیری دولت خانے کی بنیاد رکھی۔ احاطہ جہانگیری کی تعمیرات میں سنگ سرخ کا استعمال نمایاں ہے۔ یہ سادہ حسن کی عمدہ مثال ہے۔
بارود خانہ
بارود خانہ کا طرز تعمیر قلعہ لاہور کی دیگر عمارتوں سے کافی مختلف ہے کیونکہ کہ یہ مغل یا سکھ عہد میں نہیں بلکہ برطانوی دور حکومت میں سن 1857 کے قریب تعمیر کیا گیا۔ یہ نوآبادیاتی حکمرانوں کے اسلحے اور بارود کا ذخيرہ تھا جو طویل عرصے تک گھاس پھوس میں چھپا رہا اور قیام پاکستان کے بعد دریافت ہوا۔
مثمن دروازہ
مغل بادشاہ شاہجہان کے زمانے میں یہ لکڑی کا دروازہ قلعے میں داخلے کا مرکزی راستہ تھا۔ یہ شیش محل تک کی عمارتوں سے جڑا ہوا تھا اور صرف شاہی خاندان کے لوگوں اور ان کے ملازموں کے استعمال کے لیے تھا۔ اس کے ساتھ شاہی باورچی خانہ اور باغات کا ایک سلسلہ تھا جو اب ختم ہو چکا ہے۔
موتی مسجد
سفید سنگ مرمر سے بنی یہ مسجد موتیوں کی طرح چمکتی ہے، اسی نسبت سے اس کا نام موتی مسجد رکھا گیا۔ تین گنبد اور پانچ محرابوں پر مشتمل موتی مسجد پانچویں مغل حکمران شاہ جہاں نے سترہویں صدی میں تعمیر کروائی۔ رنجیت سنگھ کے عہد میں اسے مندر بنا دیا گیا اور یہاں شاہی خزانہ رکھا جانے لگا۔
عالمگیری دروازہ
اورنگزیب عالمگیر کا تعمیر کردہ عالمگیری دروازہ بادشاہی مسجد کے بالکل سامنے ہے۔ یہ مغل عہد کی عمارتوں کا خوبصورت نمونہ ہے۔ اسے خاص طور پر جنگی ہاتھیوں کی گزرگاہ کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا اس لیے اس کا دروزہ کافی اونچا ہے۔
بادشاہی مسجد
مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے 1673ء میں بادشاہی مسجد تعمیر کرائی جو مسلم فن تعمیر کا شاہکار سمجھی جاتی ہے۔ یہ پاکستان کی دوسری سب سے بڑی مسجد ہے جس میں 60 ہزار لوگ بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں۔ مسجد کے تین گنبد، چار بڑے مینار اور چار چھوٹے مینار ہیں۔ ہر بڑے مینار کی لمبائی تیس فٹ اور ہر چھوٹے مینار کی لمبائی 20 فٹ ہے۔