1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی صدر بشار الاسد نے چوتھی مدتِ صدارت کا حلف اٹھا لیا

17 جولائی 2021

خانہ جنگی کے شکار ملک شام کے صدر بشار الاسد نے چوتھی مدت کے لیے اپنے منصب کا حلف اٹھا لیا ہے۔ انہوں نے ایسے وقت میں حلف اٹھایا ہے جب ان کے ملک کی معاشی مشکلات شدید سے شدید تر ہو رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/3wcDJ
Syrien Bashar Al-Assad
تصویر: Remy de la Mauviniere/AP Photo/picture alliance

جنگ زدہ ملک شام میں صدارتی انتخابات کا انعقاد رواں برس مئی میں ہوا تھا۔ اس الیکشن میں بشار الاسد بھاری اکثریت (پچانوے فیصد سے زائد ووٹ) سے ایک مرتبہ پھر صدر منتخب ہوئے تھے۔

ہفتہ 17 جولائی کو انہوں نے چوتھی مدت کے لیے حلف اٹھا لیا ہے۔ حلف برداری کی تقریب دمشق میں واقع صدارتی محل میں منعقد ہوئی۔ اس تقریب میں حکومت نواز سیاسی عمائدین، مذہبی اکابرین، اراکینِ پارلیمان، فوجی افسران اور اعلیٰ سرکاری ملازمین نے شرکت کی۔

شام: اقوام متحدہ نے امدادی آپریشن میں توسیع کر دی

امریکا سمیت مغربی اقوام اور شام کی اپوزیشن تنظیموں کے سبھی دھڑوں نے صدارتی انتخابی عمل کو غیر قانونی اور فراڈ قرار دیا تھا۔ مغربی ممالک اس انتخابی عمل کو اقوام متحدہ کی منطور شدہ قراردادوں کے منافی خیال کرتے ہیں۔ یہ قراردادیں شامی تنازعے کے حل سے متعلق ہیں۔

BG Wahl in Syrien
الیکشن میں بشار الاسد بھاری اکثریت (پچانوے فیصد سے زائد ووٹ) سے ایک مرتبہ پھر صدر منتخب ہوئے تھےتصویر: Yamam al Shaar/REUTERS

بشار الاسد کی صدارت

شام کے سابق صدر حافظ الاسد کے بیٹے بشار الاسد سن 2000 سے مسندِ صدارت پر براجمان ہیں۔ ان کی دوسری اور تیسری مدت صدارت میں اس عرب ملک کو شدید خانہ جنگی کا سامنا رہا۔

اس خانہ جنگی کے دوران اسد اور ان کی حکومت پر مغربی اقوام کی بہت ساری پابندیوں کا نفاذ کیا گیا جو اب بھی برقرار ہیں۔ ان پابندیوں کے باوجود اسد کو روس اور ایران کی مالی و عسکری حمایت و امداد حاصل رہی۔ مغربی مبصرین کے مطابق ان دونوں حلیفوں کی مدد سے اسد اپنا اقتدار ابھی تک سنبھالے ہوئے ہیں۔ 

Syria Facebook l Präsident Assad, Amtseid im syrischen Präsidentenpalast, Damaskus
صدر بشار الاسد حلف اٹھانے سے قبل ملکی فوجی دستوں کی جانب سے پیش کیے گئے گارڈ آف آنر کا معائنہ کرتے ہوئےتصویر: Facebook page of the Syrian Presidency/AP/picture alliance

شام کی معاشی مشکلات

بشار الاسد کے دور صدارت میں خانہ جنگی کے علاوہ اقتصادی اور سماجی مسائل بھی سنگین صورت اختیار کر چکے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے اس ملک کی کرنسی پاؤنڈ ہے اور یہ مسلسل زوال پذیر ہے۔

داعش کو کمزور سمجھنے کی بھول نہ کریں، جرمن انٹلیجنس سربراہ

مجموعی شرح نمو میں گرواٹ پیدا ہونے سے معیشت قریب قریب جمود کا شکار ہو چکی ہے۔ اجناس اور دوسرا سامانِ خوراک بتدریج کمیاب ہوتا جا رہا ہے۔ ملک کی اقتصادی مشکلات مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں۔ بنیادی ضروریات زندگی بے پناہ حد تک مہنگی ہو چکی ہیں۔

بازاروں میں عام اشیا کی قیمتیں بھی لوگوں کی قوتِ خرید سے باہر ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق شام میں 80 فیصد سے زائد لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

BG Wahl in Syrien | Proteste gegen Assad in Berlin
برلن میں شامی خواتین اور دوسرے مہاجرین صدارتی الیکشن کے موقع پر بشار الاسد کے خلاف احتجاج کرتے ہوئےتصویر: Annegret Hilse/REUTERS

خانہ جنگی کے اثرات

بظاہر خانہ جنگی قریب قریب ختم ہو چکی ہے لیکن سارے ملک کے اہم اور مختلف مقامات پر حکومتی کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے ملکی و غیر ملکی فوجی دستے اور حکومت کی حامی ملیشیا کے اہلکار متعین ہیں۔

شامی مہاجرین کی میزبانی کے لیے ترکی کو مزید فنڈز دینے کی تجویز

یہ امر اہم ہے کہ خانہ جنگی کی وجہ سے مجموعی آبادی کا نصف داخلی نقل مکانی اختیار کر چکا ہے۔ ہزاروں شامی مہاجرین یورپی ممالک میں بھی مہاجرت کی زندگی بسر کر ہے ہیں۔ شام میں خانہ جنگی بشار الاسد کی دوسری مدت کے دوران سن 2011 میں شروع ہوئی تھی۔

ع ح/ا ب ا (اے پی، ڈی پی اے)