1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی حکومتی دستے برسوں بعد کلیدی شہر منبج میں داخل ہو گئے

28 دسمبر 2018

شمالی شام کے کلیدی شہر منبج پر اسد حکومت کے دستوں نے چھ سال بعد دوبارہ قبضہ کر لیا ہے۔ خانہ جنگی سے تباہ شدہ شام میں جمعہ اٹھائیس دسمبر کو سرکاری دستے پھر اس شہر میں داخل ہو گئے، جو برسوں تک کرد جنگجوؤں کے قبضے میں تھا۔

https://p.dw.com/p/3Aiwo
Syrien -syrische Soldaten gestikulieren
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Karwashan

لبنانی دارالحکومت بیروت اور شامی دارالحکومت دمشق سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق شامی فوج کے ایک ترجمان نے سرکاری ٹیلی وژن سے نشر ہونے والے اپنے ایک بیان میں کہا، ’’شامی فوج چھ سال بعد آج پہلی بار شمالی شہر منبج میں داخل ہو گئی۔‘‘ منبج پر یہ قبضہ شامی کرد عسکریت پسندوں کی ملیشیا ’پیپلز پروٹیکشن یونٹس‘ یا وائی پی جی کی طرف سے کیے گئے ایک اعلان کے کچھ ہی دیر بعد عمل میں آیا۔

ان کرد جنگجوؤں کو برسوں سے امریکا کی فوجی مدد حاصل تھی۔ لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے کے بعد کہ شام سے تمام امریکی فوجی واپس آ جائیں، یہ کرد فائٹر خود کو اکیلا اور کمزور سمجھنے لگے تھے۔

اسی لیے انہوں نے دمشق میں اسد حکومت سے یہ درخواست کر دی تھی کہ وہ شمالی شام میں ترک فوجی دستوں کی طرف سے کی جانے والی عسکری کارروائیوں کے خلاف وائی پی جی کی مدد کریں۔

صدر ٹرمپ کا شام سے امریکا کے مکمل فوجی انخلا کا گزشتہ ہفتے یکدم کیا جانے والا اعلان شامی کرد ملیشیا گروپوں، خاص کر وائی پی جی کے جنگجوؤں کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوا تھا۔ صدر بشار الاسد کی حامی ملکی فوج کے ترجمان کے مطابق شام کے شمال میں اور ترکی کے ساتھ قومی سرحد سے صرف 19 کلومیٹر کے فاصلے پر جنوب کی واقع شہر منبج پر چھ سال بعد پھر شام کا قومی پرچم لہرا دیا گیا ہے۔

قبل ازیں اسی سال منبج اور اس کے نواحی علاقے سمیت شمالی شام میں کرد عسکریت پسند اپنے زیر قبضہ وسیع تر خطہ خالی کر گئے تھے۔منبج ہی وہ بہت اہم شامی شہر بھی ہے، جہاں دمشق حکومت کی مرضی یا اجازت کے بغیر ہی امریکا کی قیادت میں داعش کے خلاف بین الاقوامی عسکری اتحاد کے دستے بھی تعینات تھے۔

Syrien US Armee in Manbij
منبج میں امریکی فوجی اڈے کی اس سال مارچ میں لی گئی ایک تصویرتصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Malla

تازہ ترین پیش رفت میں ان کرد جنگجوؤں اور وائی پی جی کی قیادت نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا، ’’ہم شامی حکومت کی فوج کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ان علاقوں پر قبضے کے لیے اپنی کوششیں تیز تر کر دے، جو ہم خالی کر چکے ہیں۔ خاص طور پر منبج شہر پر قبضے کے لیے، تاکہ ان علاقوں کا ترکی کی طرف سے فوجی مداخلت کے خلاف دفاع کیا جا سکے۔‘‘

اے ایف پی کے مطابق ان شمالی شامی علاقوں میں ابھی تک بہت سے کرد جنگجو موجود ہیں، جو سیریئن ڈیموکریٹک فورسز یا ایس ڈی ایف کا حصہ ہیں۔ شامی اپوزیشن کے یہ کرد فائٹر وہاں دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے خلاف لڑ رہے تھے اور یہ لڑائی ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوئی۔ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز نامی اتحاد کے ان مسلح ارکان کو داعش کے خلاف بین الاقوامی عسکری اتحاد کی حمایت بھی حاصل ہے۔

دریں اثنا ماسکو سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق روس نے اس پیش رفت کا خیر مقدم کیا ہے کہ دمشق حکومت کے دستے کئی سال بعد دوبارہ منبج پر قابض ہو گئے ہیں اور ترکی کے ساتھ سرحد کے قریب کلیدی اہمیت کے حامل اس شہر پر اب دوبارہ شامی پرچم لہرا رہا ہے۔

م م / ا ا / اے ایف پی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں