1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی بحران: کئی خلیجی ریاستوں میں حزب اللہ کے خلاف اقدامات

عصمت جبیں5 جولائی 2013

کئی خلیجی عرب ریاستوں نے شامی تنازعے میں حزب اللہ کے کردار کے باعث اس ایران نواز لبنانی شیعہ تنظیم کے خلاف جوابی اقدامات کرنا شروع کر دیے ہیں۔

https://p.dw.com/p/192cG
تصویر: picture-alliance/dpa

خبر رساں ادارے روئٹرز کی جانب سے دبئی سے ملنے والی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ شام کی خانہ جنگی میں حزب اللہ صدر بشار الاسد کی حامی ہونے کی وجہ سے سرکاری دستوں کی مدد کر رہی ہے۔ اس پر کئی خلیجی ملکوں نے اس تنظیم کو سزا دینے کے لیے ایسے لبنانی تارکین وطن کو ملک بدر کرنا شروع کر دیا ہے، جن کے مبینہ طور پر حزب اللہ سے رابطے ہیں۔

Libanon Krise Salafisten 23.06.2013
شامی خانہ جنگی نے خطے میں طویل عرصے سے پائے جانے والے شیعہ اور سنی مسلمانوں کے مابین کھچاؤ کی حوصلہ افزائی کی ہےتصویر: Reuters

لیکن روئٹرز کے مطابق ان انتقامی اقدامات کا ایک نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ ایسے شیعہ مسلمان بھی نشانہ بننے لگیں جن کے لبنانی عسکریت پسندوں کے ساتھ کوئی روابط نہیں ہیں۔ اس طرح ایسے غیر ملکی صرف اس لیے ناانصافیوں کا نشانہ بن سکتے ہیں کہ وہ اور حزب اللہ کے عسکریت پسند ایک ہی طرح کے شیعہ اسلام کے پیروکار ہیں۔

ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد حزب اللہ ملیشیا کا قیام شیعہ طاقت ایران کے ہاتھوں 1980ء کی دہائی میں عمل میں آیا تھا۔ تب اس کے قیام کا مقصد جنوبی لبنان پر قابض اسرائیلی فوج کے خلاف جنگ کرنا تھا۔ اب یہ عسکریت پسند گروپ اپنے گوریلوں کو شام بھیج چکا ہے، جہاں وہ شامی خانہ جنگی میں سرکاری دستوں کے اتحادیوں کے طور پر سر گرم عمل ہیں۔

حزب اللہ کے انہی گوریلوں کی وجہ سے شام کے کئی علاقوں میں ان شامی باغیوں کو عسکری حوالے سے شکست ہو چکی ہے، جنہیں خلیج کی چند عرب ریاستوں نے دمشق حکومت کے خلاف مسلح کیا تھا۔

ایک بڑی خلیجی طاقت سعودی عرب کی سربراہی میں خطے کی سنی مسلمان ریاستیں اس لیے شامی باغیوں کی ہتھیاروں اور مالی وسائل کے ساتھ مدد کر رہی ہیں کہ شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت ختم کی جا سکے جو ایران کے بڑے اہم اتحادی ہیں۔

عرب ملکوں کی تنظیم خلیجی تعاون کی کونسل جی سی سی نے گزشتہ مہینے اپنے ایک اجلاس میں اس بات کی مذمت کی تھی کہ لبنانی تنظیم حزب اللہ بدامنی کے شکار شام میں مداخلت کر رہی ہے۔ ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا گیا تھا کہ جی سی سی کی رکن ریاستیں ایسے تمام غیر ملکیوں کے رہائشی اجازت نامے منسوخ کر دیں گی جن کے حزب اللہ سے رابطے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے تارکین وطن کو خلیج کی عرب ریاستوں میں مالیاتی اور کاروباری سرگرمیوں سے روک دینے کا فیصلہ بھی کیا گیا تھا۔

Syrien Aleppo
ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد حزب اللہ ملیشیا کا قیام شیعہ طاقت ایران کے ہاتھوں 1980ء کی دہائی میں عمل میں آیا تھاتصویر: Reuters

نیوز ایجنسی روئٹرز نے اس بارے میں اپنی ایک تجزیہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ عرب ریاستوں سے شیعہ تارکین وطن کی ملک بدری کے واقعات ایک تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ شامی خانہ جنگی نے خطے میں طویل عرصے سے پائے جانے والے شیعہ اور سنی مسلمانوں کے مابین کھچاؤ کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اب یہ کھچاؤ شام کی قومی سرحدوں سے نکل کر پورے خطے میں پھیل رہا ہے۔

خلیجی تعاون کی کونسل جی سی سی میں خطے کی چھ امیر عرب ریاستیں شامل ہیں۔ یہ ملک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، کویت، عمان اور بحرین ہیں۔ کل جمعرات کو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ہونے والے اس تنظیم کے سینئر سکیورٹی اہلکاروں کے ایک اجلاس میں بحرین کے نائب وزیر داخلہ میجرل جنرل خالد العبسی نے کہا کہ حزب اللہ کے خلاف اقدامات کا فیصلہ ٹھوس شواہد ملنے کے بعد کیا گیا ہے۔

بحرین کے نائب وزیر داخلہ کے مطابق خلیج کی عرب ریاستوں میں حزب اللہ کے ٖدہشت گردوں کے کئی خفیہ سیلز کا پتہ چلا ہے۔ اس کے علاوہ حزب اللہ دہشت گرد گروپوں کی تربیت میں بھی ملوث ہے اور یہ تنظیم شام کی خانہ جنگی میں بھی کھلم کھلا مداخلت کر رہی ہے۔

جی سی سی کی رکن ریاستوں سے شیعہ تارکین وطن کی ملک بدری کے واقعات کے سلسلے میں متحدہ عرب امارات کے ایک ماہر سیاسیات عبدالخالق عبداللہ کہتے ہیں، ‘یہ بدقسمتی ہے کہ ایسے لوگوں کو بھی قیمت چکانا پڑے گی جو اس معاملے میں بالکل ملوث نہیں ہیں۔ لیکن حزب اللہ کو اس لیے ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے کہ اس نے اپنی قومی سرحدوں سے باہر نکل کر ایک ایسے معاملے میں مداخلت کی جو صرف شام کا مسئلہ ہے۔‘

اب تک خلیج کی کم از کم تین عرب ریاستوں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سے بیسیوں لبنانی شہریوں کو ملک بدر کیا جا چکا ہے۔