1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی باشندوں کے لیے اسرائیلی خفیہ امداد

کیٹ شٹل ورتھ، یروشلم / امتیاز احمد8 نومبر 2013

اسرائیلی امدادی کارکنوں کا ایک گروپ اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر زخمی شامی باشندوں کو طبی امداد فراہم کر رہا ہے۔ یہ اسرائیلی تنظیم پاکستان، سوڈان، عراق اور انڈونیشیا میں بھی خفیہ طور پر امدادی کارروائیاں کرتی رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1AE3Y
تصویر: Menahem Kahana/AFP/Getty Images

اسرائیلی کارکن شام اور اسرائیل کے مابین دشمنی کی وجہ سے اپنا کام انتہائی خفیہ طریقے سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ شامی سرحد کے قریب مہاجرین کے کیمپوں تک پہنچنے کے لیے انہیں اپنا حلیہ بھی تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ شام اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور اس کے شہریوں پر بھی شام میں داخلے پر پابندی عائد ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اسرائیل کو شام کی خانہ جنگی سے دور رہنا ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ اسرائیل سرکاری طور پر شام کے دو ملین سے زائد مہاجرین کے لیے کچھ نہیں کر رہا۔

تاہم اسرائیل کی ایک غیرمنافع بخش تنظیم سن 2005ء سے دنیا بھر میں خفیہ طور پر کام کر رہی ہے اور گزشتہ دو برسوں سے اپنی توجہ شام پر مرکوز رکھے ہوئے ہے۔ اس عرصے میں یہ تنظیم 670 ٹن خوراک، تین لاکھ خشک کھانے، صحت و صفائی کے لیے 70 ٹن اشیاء اور بیس ٹن ادویات فراہم کر چکی ہے۔ یہ امداد یہاں پر ہی بند نہیں ہوئی۔ ان دنوں اس تنظیم کا ’’آئی ایل فار سیرئین‘‘ نامی ایک گروپ صدمے کے شکار شامیوں کا مہاجرین کیمپوں تک پہنچ کر علاج کر رہا ہے۔

پاکستان سمیت دیگر ممالک میں خفیہ مشن

اس تنظیم کے لیے 12 سو سے زائد افراد کام کرتے ہیں لیکن وہ اپنی زندگیوں اور تنظیم کی حفاظت کے لیے خفیہ رہنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اسرائیل میں لازمی ملٹری سروس مکمل کرنے کے بعد اس تنظیم میں شامل ہونے والے رضاکاروں کا تعلق میڈیکل، صدمے کے شکار افراد کی دیکھ بھال، بڑے پیمانے پر کھانا کھلانے اور ریسکیو کے شعبوں سے ہے۔ یہ شامی نرسوں اور کمیونٹی کارکنوں کو بھی مہاجرین کیمپوں میں کام کرنے کی تربیت فراہم کر رہے ہیں۔

Israel ZIV Medical Center in Safed
تصویر: Menahem Kahana/AFP/Getty Images

اس گروپ کے بانیوں میں سے ایک خاتون گیلا (فرضی نام) کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ان کی تنظیم اسرائیلی حکومت کے انخلاء کو پُر کرنے کی کوشش نہیں کر رہی، ’’ہم ان تنظیموں کی مدد کرنا چاہتے ہیں، جن کی اسرائیل کی طرف سے کوئی سرکاری سطح پر مدد نہیں کی جاتی۔‘‘

اس اسرائیلی خاتون کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ ہمیں دعوت تو نہیں دی گئی تھی لیکن ہم پاکستان، سوڈان، عراق، انڈونیشیا میں کام کرتے رہے ہیں۔ ان تمام برسوں میں ہمیں کسی نے بھی مدعو نہیں کیا تھا۔ ہم ملکوں میں جاتے ہیں اور اپنا کام کر کے واپس آ جاتے ہیں۔‘‘

اس تنظیم کی ویب سائٹ پر رابطے کے لیے کوئی بھی معلومات درج نہیں ہیں۔ صرف یہ بیان لکھا ہوا پڑھا جا سکتا ہے، ’’ہم اختلافات سے بالاتر ہو کر ان ممالک پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، جن کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔‘‘ اس تنظیم کے مطابق یہودی روایت اور ثقافت کے حصے کے طور انسانی زندگی کی حرمت کا احترام کیا جانا چاہیے، ’’یہ قانون مشکل ترین حالات میں بھی اسرائیل کے سخت ترین دشمن یا کسی اور پر لاگو ہوتا ہے۔ ‘‘

خاتون گیلا کے مطابق جب شامیوں کو یہ پتہ چلتا ہے کہ اسرائیلی ان کی مدد کر رہے ہیں تو ان کا ردعمل ملا جلا ہوتا ہے۔ گیلا کے مطابق اس نے حال ہی میں شامی سیاستدانوں کے ایک گروپ سے ملاقات کی تھی اور ان پر یہ راز کھول دیا تھا کہ وہ اسرائیلی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’مسلسل جھوٹ بولتے رہنا ایک بوجھ ہے اور یہ ایک بھاری بوجھ ہے۔ یہ میری اقدار کے بھی خلاف ہے۔‘‘

اسرائیل میں خفیہ علاج

گولان پہاڑیوں کے مضافات میں سرحد پار سے درجنوں ایسے زخمی اور مریض لائے گئے ہیں، جن کا علاج اسرائیلی ڈاکٹر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہسپتالوں میں یہ راز کبھی بھی افشاء نہیں کیا گیا کہ یہ افراد کس طرح وہاں پہنچے ہیں۔ عام طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ اسرائیلی دفاعی فورسز کے اہلکار انہیں یہاں لائے ہیں۔

گیلا کے مطابق اگر شام پر امریکی حملہ ہوتا تو اسد حکومت مزید کیمیائی ہتھیار استعمال کر سکتی تھی۔ گیلا کے بقول ان کا گروپ کیمیائی ہتھیاروں کے حملے سے پہلے 500 ڈیجیٹل کیمرے تقسیم کر چکا تھا اور دنیا نے جو تصاویر دیکھیں، ان میں سے چند ایک انہی کیمروں سے لی گئیں تھیں۔

گیلا کے بقول ان کے گروپ کو خفیہ طور پر کام کرتے ہوئے بہت سے چیلنجوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔