1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام کے کيميائی ہتھيار، اسرائيلی فوجی کارروائی ممکن

25 جولائی 2012

اسرائيل شامی کيميائی ہتھياروں کی حزب اللہ کو منتقلی پر فوجی کارروائی کر سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/15eLd
تصویر: AP

اسرائيل اپنے ہمسايہ ملک شام کے حالات و واقعات پر مسلسل زيادہ متفکر ہے۔ وہاں سے تقريباً روزانہ ہی پريشان کن خبريں آ رہی ہيں۔ اسرائيل کو انديشہ ہے کہ گولان کی پہاڑيوں کے شامی علاقے ميں، جس پر اسرائيل کا قبضہ ہے، بڑی تعداد ميں شامی مہاجرين آ سکتے ہيں۔ ليکن اسرائيل کو اس سے بھی زيادہ خوف اس بات کا ہے کہ شام ميں انتشار اور خانہ جنگی کے دوران اُس کے کيميائی اور حیاتیاتی ہتھيار غلط ہاتھوں ميں آ سکتے ہيں۔ پچھلے کئی دنوں سے اسرائيل اعلانيہ يہ کہہ رہا ہے کہ وہ زہريلی گيس والے شامی ہتھياروں کی ممکنہ طور پر غلط ہاتھوں ميں منتقلی کو روکنے کے ليے فوجی کارروائی پر غور کر رہا ہے۔

اسرائيلی وزير اعظم بينجمن نيتن ياہو اور وزير دفاع ايہود باراک کے بعد اب صدر شيمون پيریز نے بھی امريکی ٹيلی وژن سی اين اين کو ايک انٹرويو ديتے ہوئے غير معمولی حد تک واضح طور پر کہا ہے کہ اسرائيل ايسے کيميائی ہتھياروں کی منتقلی پر لا تعلق نہيں رہ سکتا جو اُس کے خلاف استعمال کيے جا سکتے ہوں۔

تہران ميں حزب اللہ کے قائد نصراللہ کی تصوير والا ايک پوسٹر
تہران ميں حزب اللہ کے قائد نصراللہ کی تصوير والا ايک پوسٹرتصویر: DW

اسرائيل کے ليے لبنان کی ايران نواز حزب اللہ کو شامی کيميائی ہتھياروں کی ممکنہ منتقلی خاص طور پر خطرناک ہو گی۔ حزب اللہ کے مورچے اسرائيل کی شمالی سرحد کے قريب ہی واقع ہيں۔ شام کے کيميائی ہتھياروں کے خفيہ گوداموں پر اسرائيلی فضائی حملوں کے امکانات کی افواہيں گردش کر رہی ہيں۔ ليکن ان ہتھياروں کی منتقلی کو روکنے کے لیے کی جانے والی ہر فوجی کارروائی ايک جنگی اقدام ہو گی۔ اسرائيلی ميڈيا ميں يہ بحث جاری ہے کہ حزب اللہ کے خلاف اسرائيلی فوجی کارروائی سے لبنان اوراسرائيل کے درمیان نئی جنگ چھڑ سکتی ہے۔

امريکا، ترکی اور اردن بھی شام کے کيميائی زہريلے ہتھياروں کے بارے ميں متفکر ہيں۔ اسرائيل فی الحال صرف انتظار ہی کر سکتا ہے۔ ليکن اسرائيلی ميڈيا کا کہنا ہے کہ اُسے علاقائی يا بين الاقوامی سطح پر دوسرے ممالک کے تعاون سے کوئی حل تلاش کرنا چاہيے۔ ميڈيا نے سلامتی کے ايک اسرائيلی مشير کے حوالے سے کہا ہے کہ کيميائی اور حياتياتی ہتھيار ابھی تک اسد حکومت کی نگرانی ہی ميں ہيں ليکن صورتحال تيزی سے تبديل بھی ہو سکتی ہے۔ 

گولان کی پہاڑيوں پر اقوام متحدہ کی امن فوج
گولان کی پہاڑيوں پر اقوام متحدہ کی امن فوجتصویر: AP

اسرائيل کو شامی کيميائی ہتھياروں کی منتقلی کے علاوہ اور انديشے بھی ہيں۔ برسوں سے اُس کے زير قبضہ شامی گولان کی پہاڑيوں پر نسبتاً سکون ہے۔ ليکن اسد حکومت کے زوال کے بعد يہ صورتحال تيزی سے بدل سکتی ہے۔ يہ علاقہ اسرائيل کی جنوبی سرحد سے ملنے والے مصری علاقے سينائی کی طرح شورش کی زَد میں آ سکتا ہے جہاں صدر حسنی مبارک کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے انتہا پسند اور عسکريت پسند گروپوں کا زور ہے۔ وہاں سے عسکريت پسند کئی بار اسرائيل پر حملے کر چکے ہيں۔ لہٰذا اگر اسد حکومت کا خاتمہ ہوتا ہے، جس کے آثار نظر آ رہے ہيں تو شدت پسند مسلم گروپ سياسی افراتفری سے فائدہ اٹھا کر اسرائيل کی شمالی سرحد پر بھی سرگرم عمل ہو سکتے ہيں۔

شام کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے تجزيہ نگار ايال زيسر نے کہا: ’’اسرائيل کو اسد حکومت کے خاتمے سے فائدہ بھی ہو گا اور نقصان بھی۔ اس طرح ايران اور شام کے مابين سياسی فوجی پل ٹوٹ جائے گا۔ تب دمشق ايران کے ليے مشرق وسطٰی کا دروازہ نہيں رہے گا۔‘‘

اسرائيل شامی ہتھياروں پر تفکرات کے ساتھ ساتھ ايرانی ايٹمی خطرے سے بھی پوری طرح خبردار ہے۔ معروف روزنامے Haaretz کے تبصرہ نگار آموس ہاريل نے لکھا ہے کہ علاقے کی صورتحال لمحہ بہ لمحہ پيچيدہ تر اور خطرناک ہوتی جا رہی ہے۔

T.Krämer,sas/D.Hodali,aa