1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام کے صدر بشار الاسد کی تہران میں خامنہ ای سے ملاقات

31 مئی 2024

بشار الاسد کا دورہ ایران ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ملک کے صدر رئیسی کی موت کے بعد نئے صدر کے انتخاب کے لیے 28 جون کو ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کے اندراج کا عمل جاری ہے۔

https://p.dw.com/p/4gTf9
اسد خامنہ ای
اسد نے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کے لیے بھی تعزیت پیش کی، جو رئیسی کے ساتھ ہی حادثے میں ہلاک ہو گئے تھےتصویر: Office of the Iranian Supreme Leader /AP/picture alliance

شام کے صدر بشار الاسد نے جمعرات کے روز تہران میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای سے ملاقات کی اور ہیلی کاپٹر کے حادثے میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی ہلاکت پر تعزیت کا اظہار کیا۔

سعودی عرب نے بارہ سال بعد شام میں اپنا سفیر مقرر کر دیا

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی 19 مئی کو اس وقت ہلاک ہو گئے تھے، جب ان کا ہیلی کاپٹر شمال مغربی ایران کے پہاڑی علاقے سے پرواز کرتے ہوئے شدید دھند میں گر کر تباہ ہو گیا۔

ایرانی صدر کے قافلے میں شامل ہیلی کاپٹر حادثے کا شکار

اسد نے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کے لیے بھی تعزیت پیش کی، جو رئیسی کے ساتھ ہی حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔

اسرائیلی جنگی طیاروں کا جنوبی شام میں فوجی اڈے پر حملہ

جمعرات کے روز ہی صدر رئیسی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اقوام متحدہ میں ایک اجلاس ہوا، جس کا امریکہ نے یہ کہتے ہوئے بائیکاٹ کیا کہ وہ ''متعدد، ہولناک انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث تھے۔''

مشرق وسطیٰ میں کشیدگی، تیل کی قیمتوں میں اضافہ

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی روایتی طور پر کسی بھی ایسے عالمی رہنما کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے میٹنگ کرتی ہے، جو اپنی موت کے وقت ریاست کا سربراہ رہا ہو۔

ایران اسرائیل کشیدگی، مزید امریکی فوجی مشرق وسطیٰ روانہ

ایران اور شام کے مضبوط تعلقات

شام کے ایوان صدر کے ایک بیان کے مطابق جمعرات کو اسد اور خامنہ ای نے کہا کہ ایران اور شام کے تعلقات بہت مضبوط ہیں۔

اسد خامنہ ای ملاقات
ایران کی پراکسی ملیشیا اور روسی فوج کی مداخلت کے سبب شام کی اس خانہ جنگی میں اسد کی حکومت کو بالادستی حاصل کرنے میں مدد ملی ہےتصویر: AFP

واضح رہے کہ صدر رئیسی کی موت ایک ایسے وقت ہوئی جب ایران میں اندرون و بیرون ملک کے تعلقات کے حوالے سے کافی تناؤ کا شکار ہے۔

عالمی برادری کا مشرق وسطیٰ میں کشیدگی میں کمی لانے پر اصرار

مہسا امینی کی موت سے شروع ہونے والے وسیع پیمانے پر احتجاجی تحریک کے سبب ایرانی حکومت گھریلو سطح پر جکڑ کر رہ گئی ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ خطے کے دورے کے پہلے مرحلے میں عمان میں

اپریل میں ایران نے اسرائیل پر ڈرون اور میزائل حملہ کیا تھا، جو کہ اس کے بقول شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی قونصلر کی عمارت پر اسرائیلی حملے کے جواب میں تھا۔

ایران کی پراکسی ملیشیا اور روسی فوج کی مداخلت کے سبب شام کی اس خانہ جنگی میں اسد کی حکومت کو بالادستی حاصل کرنے میں مدد ملی ہے، جو سن 2011 میں بڑے پیمانے پر جمہوریت نواز مظاہروں کے بعد شروع ہوئی تھی۔

اس تنازعے میں اب تک نصف ملین سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ لاکھوں شہری بے گھر ہوئے ہیں۔ شام کے بنیادی ڈھانچے اور صنعت کا وسیع تر حصہ تباہ ہو چکا ہے۔

اسد پر جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے اور وہ عالمی سطح پر طویل عرصے سے ایک الگ تھلک پڑ گئے۔ لیکن 2023 کے آس پاس سے، جب شام کو 12 سال کی معطلی کے بعد دوبارہ عرب لیگ میں شامل ہونے کی اجازت ملی، تو انہوں نے دوبارہ باقاعدہ عوامی سطرح ر ظاہر ہونا شروع ہوئے اور غیر ملکی دورے کرنا شروع کیے۔

دریں اثناایران میں 28 جون کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے خواہش مند امیدواروں کے لیے رجسٹریشن کی پانچ روزہ مدت جمعرات 30 مئی کو شروع ہو گئی۔ کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ چار جون ہے۔ ایسے امیدوار اپنے کاغذات جمع کرا سکتے ہیں جن کی عمر 40 سے 75 برس تک ہے اور جن کے پاس کم از کم ماسٹر ڈگری ہے۔ تمام امیدواروں کو حتمی منظوری ایران کی 12 رکنی گارڈین کونسل دے گی، جو علماء اور فقہاء کا ایک پینل ہے جس کے سربراہ علی خامنہ ای ہیں۔

ص ز/ ج ا (اے پی، روئٹرز)

ایران کا مشرق وسطیٰ کے بحران میں کلیدی کردار