شام کے خلاف مزید پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں، امریکہ
7 مئی 2011جمعے کے روز شام کی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مزید 27 مظاہرین کی ہلاکت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے امریکہ کی طرف سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ بشارالاسد کی حکومت اپنے شہریوں کے قتل عام سے باز رہے۔
جمہوریت پسندوں کے مطابق جمعے کو سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے افراد کے علاوہ درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے۔ انسانی حقوق کے کارکنان کے مطابق 18 مارچ سے شام میں شروع ہونے والے ان حکومت مخالف مظاہروں میں اب تک 580 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ جمعے کی نماز کے بعد شام کے بہت سے شہروں میں مظاہرین سڑکوں پر نکلے اور ملک میں جمہوریت کے نفاذ اور آزادی کے ساتھ ساتھ صدر بشارالاسد سے مستعفی ہونے کے مطالبات بھی کئے۔
گزشتہ روز یورپی یونین نے شام کو اسلحے کی فروخت پر پابندی عائد کر دی۔ اس کے علاوہ متعدد چیدہ حکومتی اہلکاروں کے یورپی یونین میں شامل ممالک میں داخلے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی نے کہا، ’امریکہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اپنے ہی شہریوں کے خلاف شام کے سخت اقدامات پر عالمی برادری شدید ردعمل ظاہر کرے گی۔‘‘
کارنی کے مطابق : ’’امریکہ، شام کی حکومت کے طرز عمل میں کسی واضح تبدیلی کی کمی، بشمول مظاہرین کے قتل عام اور عام افراد کو حراسان کرنے جیسے اقدامات کی شدید مخالفت کرتا ہے۔‘‘
کارنی نے کہا کہ امریکہ اور اس کے بین الاقوامی پارٹنرز اس سلسلے میں شام کی حکومت کے خلاف مزید اقدامات کریں گے۔ واضح رہے کہ امریکہ نے گزشتہ ہفتے شام کے صدر بشارالاسد کے بھائی اور کزن کے ساتھ ساتھ شام کی خفیہ ایجنسی کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : شامل شمس