1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام کی جنگ میں عراقی شیعہ ملیشیا اور القاعدہ جنگجوؤں کی شمولیت

11 اپریل 2013

شورش زدہ عرب ملک شام میں اب عراقی شیعہ کھلم کھلا مسلح کارروائیوں میں شریک ہیں اور دوسری جانب اسد حکومت مخالف مضبوط عسکری گروپ النصرۃ نے القاعدہ کے ساتھ اتحاد کا دعویٰ کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/18Dx5
تصویر: picture-alliance/AP

شام میں حکومت مخالف باغیوں کے خلاف ڈھکے چھپے انداز میں حزب اُللہ کی حمایت کا ذکر تو عام ہے لیکن عراق کے شیعہ مسلح گروپ اب کھلم کھلا اس جنگ میں شمولیت کا اعتراف کرنے لگے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ بشار الاسد کا تعلق علوی عقیدے سے ہے اور یہ مذہب اسلام کے شیعہ فرقے کی ایک شاخ تصور کی جاتی ہے۔

عراق کے عصائب اہل الحق اور کتائب حزب اللہ نامی اہم شیعہ ملیشیا گروپوں نے شامی باغیوں کے خلاف کارروائیوں میں شریک ہونے کا اعتراف کر لیا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ پہلی مرتبہ ہےکہ عراق کے شیعہ ملیشیا گروپوں نےکھلے عام تسلیم کیا ہے۔ روئٹرز کے بقول اس بیان کے بعد عراق میں بشارالاسد کے حامی جنگجوؤں کو بھرتی کرنے کے عمل میں تیزی آ سکتی ہے۔

Syrien Konflikt Bürgerkrieg Protest Demonstration
شامی باغیوں کے کئی گروپس ہیں جو اسد حکومت کے خلاف برسرپیکار ہیںتصویر: AFP/Getty Images

روئٹرز نے مزید لکھا ہے کہ گزشتہ مہینوں کے دوران بہت سارے رضاکار شام کے سرکاری دستوں کے شانہ بشانہ لڑنےکے لیے عراق سے شام گئے ہیں۔ عسکریت پسندوں کے ایک رہنما ابو مجاہد کے بقول شعیہ برادری شام میں ہونے والی جنگ میں شامل ہونے کو جائز سمجھنے لگی ہے۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ آیا مزارت اور مقدس مقامات کی حفاظت کے لیے یا پھر اسد کے دستوں کے ساتھ دینے کے لیے اس جنگ میں شریک ہوا جائے۔

دوسری جانب عراق نے شام جانے والے ایرانی طیارے کو تلاشی لینےکے لیے بغداد کے ہوائی اڈے پر اتار لیا ۔ عراقی حکام کے بقول شک تھا کہ سامان بردار747 طیارے پر اسلحہ شام لے جایا جا رہا ہے تاہم تلاشی کے دوران کسی قسم کا غیر قانونی سامان برآمد نہیں ہوا۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران یہ اپنی نوعیت کا تیسرا واقعہ تھا۔ واشنگٹن کی جانب سے عراق پر دباؤ ہے کہ وہ اپنی فضائی حدود کو ایران سے شام منتقل ہونے والے اسلحے کے لیے استعمال نہ ہونے دے۔ اسی باعث عراق نے فضائی حدود کے ساتھ ساتھ زمینی راستوں کی نگرانی کا عمل بھی سخت کر دیا ہے۔

Syrien Lage in Damaskus
شامی باغی مغربی اقوام سے اسلحے کا مطالبہ کرتے ہیںتصویر: Reuters

ادھر بدھ کے روز شام میں حکومت مخالف باغیوں میں شریک ایک اہم عسکری گروپ النصرۃ نے القاعدہ کے امیر کی اطاعت کرتے ہوئے اتحاد کا اعلان کیا ہے۔ اس اعلان کے بعد النصرۃ محاذ میں دو مختلف گروپ سامنے آنے سے ان میں تناؤ کو محسوس کیا گیا ہے۔ النصرۃ کے لیڈر ابو محمد الجولانی نے اس اتحاد سے خود کو دور کرتے ہوئے کہا کہ اس تناظر میں ان سے مشاورت نہیں کی گئی۔ الجولانی کے مطابق یہ اعلان تنظیم کی باقاعدہ حمایت سے عاری اور قبل از وقت ہے۔ منگل کے روز القاعدہ کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اس کے حامیوں نے شام کے اہم عسکری گروپ النصرۃ محاذ میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ النصرۃ عسکری گروپ کو عربی میں جبهة النصرة کہا جاتا ہے اور یہی نام القاعدہ نے اپنے بیان میں استعمال کیا تھا۔

اس اتحاد کا خوف عراقی دارالحکومت بغداد میں بھی محسوس کیا گیا ہے اور خفیہ ادارے عراق میں بڑھتے تشدد کے واقعات کو اس سے منسلک کرنے لگے ہیں۔ عالمی طاقتیں اس ممکنہ صورتحال پر پہلے ہی اپنی تشویش کا اظہار کر چکی ہیں۔ امریکا النصرۃ محاذ کو پہلے ہی القاعدہ سے وابستگی کے شبے میں ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے چکا ہے۔ شامی اپوزیشن کے قومی اتحاد کی میٹنگوں میں امریکا اور یورپی طاقتیں باغیوں کی مالی امداد کا اعلان کر چکی ہیں۔ برطانیہ اور فرانس باغیوں کی ہتھیاروں سے امداد کے بھی متمنی ہیں۔ امریکا اسی احساس کے ساتھ براہ راست شامی باغیوں کو اسحلے کی ترسیل کی مخالفت کرتا ہے۔

(ah/ai(Reuters, AP