1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام کا بحران، لبنان بھی لپیٹ میں

Kishwar Mustafa21 اکتوبر 2012

لبنان میں شام مخالف جذبات میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ لبنانی سیاستدان اس حملے کے پیچھے صدر بشار الاسد کا ہاتھ ہونے کا الزام عائد کر رہے ہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/16U5a
تصویر: Reuters

شام کے لیے امن کے خصوصی ایلچی لخضر براہیمی نے شامی حکومت اور باغیوں دونوں پر زور دیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے مذہبی تہوار عید الاضحیٰ کے موقع پر یکطرفہ التوائے جنگ کا اعلان کر دیں۔ انہوں نے یہ بات دمشق میں شامی صدر بشار الاسد سے ملاقات کے بعد کی۔ براہیمی کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے، جب آج ہی دمشق کے مسیحی اکثریت والے قدیم حصے میں ایک پولیس اسٹیشن کے باہر ہونے والے ایک کار بم دھماکے میں سات افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے اس دھماکے میں مرنے والوں کی تعداد دَس اور زخمیوں کی پندرہ بتائی ہے۔

شام متعدد بار اپنے ہمسایہ ملک ترکی اور تیل کی دولت سے مالا مال ملک سعودی عرب کو شام کے بحران کا ذمہ دار ٹہرا چکا ہے۔ دریں اثناء نیشنل کوآرڈینیشن باڈی فار ڈیمو کریٹک چینج ان سیریا کے چیئرمین حسن عبدل عظیم نے براہیمی کی طرف سے التوائے جنگ کی تجویز کی حمایت کی ہے۔ اس گروپ کا شمار شام کے معتدل اپوزیشن گروپوں میں ہوتا ہے، جو ملکی مسلح بغاوت میں شامل نہیں ہے۔ حسن عبدل عظیم نے کہا ہے کہ مجوزہ فائر بندی پر عمل درآمد اور اسے وسیع تر بناتے ہوئے اسد حکومت کی طرف سے حراست میں لیے گئے قیدیوں کی رہائی اور محصور شدہ شہریوں کو طبی امداد فراہم کرنے سے سیاسی عمل کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔

Libanon Tausende versammeln sich in Beirut für Beerdigung al Hassans
وسام الحسن کی آخری رسومات کے موقع پر لبنان میں شام کے خلاف مظاہرےتصویر: dapd

اُدھر شام کا پڑوسی ملک لبنان جو 2005ء تک 30 سالہ شامی فوجی اور سیاسی تسلط میں رہا ہے، شام کے بحران کے نتیجے میں بری طرح منقسم نظر آ رہا ہے۔ جمعہ 19 اکتوبر بیروت میں ایک کار بم حملے میں لبنان کے انٹیلیجنس چیف بریگیڈیئر وسام الحسن سمیت 8 افراد کی ہلاکت کے بعد لبنان میں شام مخالف جذبات میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ لبنانی سیاستدان اس حملے کے پیچھے صدر بشار الاسد کا ہاتھ ہونے کا الزام عائد کر رہے ہیں ہے۔ جبکہ دمشق حکومت نے حملے کے فوراً بعد اسے ایک 'بزدلانہ کارروائی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی تھی۔

شام کے خلاف لبنانی باشندوں کے بھڑکے ہوئے جذبات کا بھر پور اظہار آج وسام الحسن کی آخری رسومات اور اس موقع پر منائے جانے والے ’یوم غیض و غضب‘ کے موقع پر ہوا۔ سیاہ لباس میں ملبوس سوگ منانے والے وسام الحسن کی تصویریں اٹھائے اور شام کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے اُس قبر ستان کی طرف گئے، جہاں وسام الحسن کو 2005ء میں قتل ہونے والے سابق وزیر اعظم رفیق الحریری کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔

Treffen von Assad und Brahimi
اسد اور براہیمی کی ملاقاتتصویر: picture-alliance/dpa

دریں اثناء عرب اتحاد کی مخالف اور مغرب نواز لبنانی مسیحیوں کی سیاسی پارٹی حزب فلانژ لبنان کے سیاستدان سامی گمائل، جن کے بھائی کو 2006ء میں قتل کر دیا گیا تھا، نے بیروت کے بم حملے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ لبنان شامی حکومت کے ساتھ ایک کھلے تصادم میں شامل ہو گیا ہے۔ ڈی پی اے کو بیان دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ،’لبنان کے آزاد عوام اور ایک ایسے غیر ملک کے مابین ایک کھلی جنگ شروع ہو گئی ہے، جو لبنان کی خود مختاری اور اتحاد کو پامال کر رہا ہے‘۔

km/aa(AFP)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید