شام نے حکومت کی تبدیلی سے متعلق عرب لیگ کا مطالبہ رد کر دیا
23 جنوری 2012جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق شام کے سرکاری ٹیلی وژن نے آج اتوار 23 جنوری کو ایک حکومتی اہلکار کا نام بتائے بغیر اس مطالبے کو شام کے اندرونی معاملات میں ’برملا دخل اندازی‘ قرار دیا۔ اس اہلکار نے اُلٹا عرب لیگ سے مطالبہ کیا کہ وہ شام میں ’دہشت گردوں کو رقوم اور اسلحہ فراہم کرنے‘ سے باز رہے۔
22 رکن ریاستوں پر مشتمل عرب لیگ کے وزارئے خارجہ نے اتوار 22 جنوری کو شامی حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا تھا کہ وہ ملک میں قبل از وقت انتخابات کا اعلان کرے۔
قطر کے حکمران شیخ حماد بین جاسم الثانی کے مطابق عرب لیگ کی طرف سے پیش کردہ حل، کم وبیش اسی نوعیت کا ہے، جو حال ہی میں یمن کے مسئلے کا حل ثابت ہوا ہے۔ اس منصوبے میں آئین ساز اسمبلی کے انتخابات کروا کر ملک میں نئے آئین کی تیاری کا بھی کہا گیا ہے۔ عرب لیگ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے نئے منصوبے کی حمایت کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے بھی رجوع کرے گی۔
یورپی یونین نے شام میں قیام امن کے لیے عرب لیگ کے منصوبے کی حمایت کر دی ہے۔ برسلز میں ہونے والے یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شامی صدر پر دباؤ بڑھانے کے لیے مزید 22 حکومتی اہلکاروں اور آٹھ کمپنیوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔ یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ کیتھرین ایشٹن کے مطابق انہوں نے عرب لیگ کے سربراہ نبیل العربی سے فون پر بات کی ہے اور عرب لیگ کی طرف سے دو ماہ کے اندر شام میں ایک متفقہ قومی حکومت کے قیام کے منصوبے پر اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے۔ جرمنی اور برطانیہ نے بھی اس منصوبے کی حمایت کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے اس معاملے میں دخل اندازی کی اپیل کی ہے۔
دوسری جانب عرب لیگ نے شام میں اپنے مبصر مشن کی مدت میں ایک ماہ کی توسیع بھی کر دی ہے۔ مشن کی مدت میں توسیع کا فیصلہ بھی قاہرہ میں ہونے والے عرب لیگ کے اجلاس میں کیا گیا۔ اس سے قبل عرب ریاستوں کی اس تنظیم کے ایک خصوصی پینل کا ایک اجلاس مبصر مشن کی شام کی صورتحال سے متعلق تیار کردہ رپورٹ سننے اور اس کا جائزہ لینے کے لیے بند کمرے میں منعقد ہوا۔
عرب ریاست شام میں جاری حکومت مخالف احتجاج کے سلسلے کو 10 ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس دوران اب تک 5400 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: شادی خان سیف