شام میں کرد جنگجوؤں کی طرف سے لڑنے والا جرمن شہری مارا گیا
6 نومبر 2019یہ جرمن شہری گزشتہ ماہ اکتوبر میں شامی کرد ملیشیا کے خلاف ترک فوج کی طرف سے کی گئی ایک فضائی کارروائی میں ہلاک ہو گیا تھا۔ ڈی ڈبلیو نے اس جرمن شہری کے والدین سے گفتگو کی، تو انہوں نے بتایا کہ ان کا بیٹا اپنی 'انصاف کی خواہش‘ کی وجہ سے خانہ جنگی کے شکار ملک شام گیا تھا، ''اس کی اس سوچ کی وجہ داعش کی طرف سے کیے گئے مظالم بنے تھے اور وہ داعش کے جہادیوں کے خلاف ہی لڑنے گیا تھا۔‘‘
کونسٹانٹین کے والدین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے بیٹے کا آخری پیغام یہ تھا، ''مجھے اب جانا ہے۔‘‘ اس کے تین دن بعد یہ جرمن باشندہ شمال مشرقی شام کے شہر راس العین میں ترک فضائیہ کے وائی پی جی کے ارکان کے خلاف کیے گئے اس فضائی حملے میں مارا گیا، جس میں کئی کرد بھی مارے گئے تھے۔ کونسٹانٹین کے والدین نے یہ تصدیق بھی کی کہ ان کا بیٹا وائی پی جی نامی اس کرد ملیشیا کا باقاعدہ رکن تھا، جس کے نام کا مطلب 'کرد عوام کے حفاظتی یونٹس‘ بنتا ہے۔
کونسٹانٹین کے ماں باپ نے بتایا کہ جب ترک مسلح افواج نے شمال مشرقی شام میں اپنی کارروائیاں شروع کیں، تو شروع میں چند روز تک وہاں لڑائی ہوتی رہی تھی۔ اس دوران انہیں بہت تشویش تھی کیونکہ انہیں اپنے بیٹے کی سلامتی سے متعلق کوئی خبر نہیں مل رہی تھی۔
پھر جب یہ افواہیں پھیلنا شروع ہوئیں کہ اس لڑائی میں ایک غیر ملکی فائٹر بھی مارا گیا ہے، تو ان کی تشویش میں مزید اضافہ ہو گیا۔ اس کے بعد آخرکار انہیں یہ ناقابل یقین خبر بھی مل گئی کہ ان کا بیٹا مارا گیا تھا۔ انہوں نے کہا، ''ہمارے لیے یہ خبر ناقابل یقین تھی، لیکن زندگی میں کچھ ناقابل یقین باتوں پر بھی انسان کو بالآخر یقین تو کرنا ہی پڑتا ہے۔‘‘
ڈی ڈبلیو اپنے طور پر یہ تصدیق نہ کر سکا کہ بیس اور پچیس سال کے درمیان کی عمر کا کونسٹانٹین کب اور کیسے مارا گیا، تاہم شام کے اسی علاقے میں کرد ملیشیا کارکنوں کے ساتھ مل کر لڑنے والے ایک اور جرمن شہری نے تصدیق کر دی کہ کونسٹانٹین راس العین میں ترک فضائی حملے میں ہلاک ہوا تھا۔
جرمن حکام کے اندازوں کے مطابق شام میں کرد جنگجوؤں کے شانہ بشانہ لڑائی میں حصہ لینے کے لیے مشرق وسطیٰ کے اس ملک جانے والے جرمن شہریوں کی مجموعی تعداد 200 تک ہو سکتی ہے۔ ان میں سے اب تک داعش کے خلاف لڑتے ہوئے کم از کم دو جرمن شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔
ناؤمی کونراڈ (م م / ع ا)