1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں عرب امن فورس بھیجنے کی تجویز

15 جنوری 2012

قطر کے امیر شیخ حمد بن الخلیفہ الثانی نے شام میں حکومتی فورسز کے ہاتھوں مظاہرین کی مبینہ ہلاکتوں کا سلسلہ روکنے کی خاطر وہاں عرب فوج بھیجنے کی تجویز پیش کی ہے۔

https://p.dw.com/p/13jrz
شیخ حمد بن الخلیفہ الثانیتصویر: Reuters

امریکی نشریاتی ادارے سی بی ایس کے مطابق انہوں نے کہا، ’اس مخصوص صورتحال میں شہری ہلاکتوں کو روکنے کے لیے وہاں کچھ فوجی دستے روانہ کیے جانے چاہییں‘۔ لیبیا کے سابق رہنما معمر قذافی کے خلاف نیٹو کارروائیوں کی حمایت کرنے والے قطر کے امیر وہ پہلے عرب رہنما بن گئے ہیں، جنہوں نے شام میں عرب امن فوج تعینات کرنے کے لیے کہا ہے۔

عرب لیگ کی کمیٹی برائے شام کی سربراہی کرنے والے قطری امیر نے کہا کہ شام میں عرب مبصرین کی موجودگی کے باوجود وہاں ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے۔

تاہم شیخ حمد بن الخلیفہ الثانی نے اپنے انٹرویو میں یہ نہیں بتایا کہ شام میں عرب لیگ کس طرح فوجی مداخلت کر سکتی ہے؟ ابھی تک صرف فرانس کی طرف سے شامی شہریوں کے تحفظ کے لیے زونز کے قیام کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

تجزیہ کاروں کے خیال میں بیرونی فوجی مداخلت کی صورت میں مشرق وسطیٰ کا پورا خطہ خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے
تصویر: AP GraphicsBank

تجزیہ کاروں کے خیال میں بیرونی فوجی مداخلت کی صورت میں مشرق وسطیٰ کا پورا خطہ خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے۔ خطے کی سیاست میں شام کا کردار انتہائی اہم ہے۔ اسرائیل کے ساتھ مشرق وسطیٰ کے تنازعے میں شام وہ آخری ملک ہے، جسے اسرائیل کے لیے اب بھی خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔ ابھی تک دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری لانے کی کئی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ دمشق کو حماس کا ہیڈ کوارٹر بھی سمجھا جاتا ہے جبکہ حماس کے سربراہ خالد مشعل بھی شام ہی میں مقیم ہیں۔

شام کو لبنان کی سیاست سے بھی الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ایران اور دمشق حکومت لبنان کی شیعہ جماعت حزب اللہ کے بڑے اتحادی تصور کیے جاتے ہیں جبکہ عرب دنیا میں دمشق حکومت تہران کی واحد اتحادی بھی ہے۔ شام میں عراقی پناہ گزینوں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ شام کی سعودی حکومت اور دیگر خلیجی ریاستوں کے ساتھ تعلقات بھی مشکلات کا شکار ہیں۔ لبنان کے سابق سنی وزیر اعظم رفیق حریری کے قتل کا الزام بھی سب سے پہلے شام پر ہی لگایا گیا تھا۔ اگر شام میں فوجی مداخلت کی گئی تو اس بات کا بھی خطرہ ہے کہ خطے میں شیعہ سنی فسادات کا آغاز ہو سکتا ہے۔ اسد خاندان کا تعلق شام میں بسنے والے علوی فرقے سے ہے۔ شام میں علوی فرقے کی آبادی تیرہ فیصد ہے۔

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق شام میں حکومت مخالف مظاہروں کے نتیجے میں مارچ سے لے کر اب تک کم ازکم پانچ ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ دمشق حکومت کے مطابق ’مسلح دہشت گردوں‘ کے ہاتھوں اب تک دو ہزار سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔

گزشتہ روز تشدد کی تازہ کارروائیوں میں لبنانی سرحد پر واقع پہاڑی علاقے الزبدانی میں 40 افراد کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ اس شہر کے ایک رہائشی نے ٹیلفون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مظاہرین کے خلاف ٹینکوں کا استعمال بھی کیا گیا۔

رپورٹ: امتیاز احمد

ادارت: شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں