شام میں خونی جمعہ: عالمی سطح پر مذمت کا سلسلہ جاری
24 اپریل 2011شام میں جمعہ کو ان کارروائیوں کے نتیجے میں اسّی سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ بعدازاں ہلاک ہونے والوں کی تدفین پر ایک بار پھر فائرنگ سے ہونے والے تازہ ہلاکتوں پر عالمی لیڈروں کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ ہفتہ کو بھی سکیورٹی فورسز کی فائرنگ میں کم از کم تیرہ افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے۔ اس پر مذمت کرنے والوں میں امریکی صدر باراک اوباما کے بعد اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون، یورپی یونین، روس، جرمنی، یونان، بیلجیئم، آسٹریا اور اٹلی شامل ہیں۔
شام کے حلیف ملک روس نے دمشق حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ سیاسی اصلاحات کے عمل میں مزید تیزی پیدا کر کے عوامی جذبات کا خیال رکھے۔ شام میں حکومت اور عوام کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی اور تناؤ پر ماسکو نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ روسی وزارت خارجہ نے شام کو ایک دوست ملک قرار دیتے ہوئے ملک کے اندر تعمیراتی مذاکراتی عمل کو وقت کی ضرورت قرار دینے کے علاوہ تشدد کے سلسلے کو روکنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ امور کی چیف کیتھرین ایشٹن نے بھی ان ہلاکتوں کی مذمت کی ہے۔ ایشٹن نے اس عمل کو ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے مفید سیاسی اصلاحات کو فوری طور پر متعارف کروانے کو اہم خیال کیا ہے۔
جرمنی کے وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے کا کہنا تھا کہ شام میں پرامن مظاہرین کے خلاف ظالمانہ کارروائی ناقابل قبول عمل ہے۔ جرمن وزیر خارجہ کے بیان میں جمعہ کے روز ہونے والی ہلاکتوں پر سخت افسوس اور حکومتی کارروائی کی مذمت کی گئی ہے۔ اسی طرح یونان کے وزیر خارجہ Dimitris Droutsas نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ آزادئ اظہار رائے اور اجتماع عوام کا بنیادی حق ہے اور جمہوریت کی اساس ہے۔ انہوں نے بھی شامی حکومتی عمل کی مذمت کے علاوہ تشدد کے سلسلے کو روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
فرانس کے وزیر خارجہ Alain Juppe کی جانب سے بھی مذمتی بیان جاری کیا گیا ہے۔ فرانسیسی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ لوگ جو اس ظالمانہ فعل اور جرم میں شامل ہیں ان کو اس کا جواب دینا ہو گا۔ شامی حکومتی کارروائیوں پر فرانس کی جانب سے دوسری مرتبہ مذمتی بیان میں جاری کیا گیا ہے۔ تازہ بیان میں سکیورٹی فورسز کی فائرنگ کوگھناؤنے جرم کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ فرانسیسی وزیر خارجہ نے جمعہ کو سکیورٹی فورسز کی کارروائی کو انتہائی ظالمانہ عمل سے تعبیر کیا ہے۔ شامی حکومتی کارروائی کی مذمت کرنے والوں میں بیلجیئم کے وزیر خارجہ اور آسٹریا کے چانسلر Werner Faymann بھی شامل ہیں۔
جمعہ کی شام کو ہی امریکی صدر نے دمشق حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ مظاہرین پر انتہائی ظالمانہ تشدد کے سلسلے کو فوری طور پر بند کرے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ شام کے صدر بشار الاسد اس سلسلے میں ایران سے تعاون حاصل کیے ہوئے ہیں۔ تاہم ایران نے باراک اوباما کا یہ بیان مسترد کر دیا ہے۔
رپورٹ: عابد حسین ⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: ندیم گِل