1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں ایک ہدف پر حملہ، اسرائیل کی تصدیق

4 مئی 2013

آج ایک اسرائیلی سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ جمعے کو اسرائیل نے شام میں میزائلوں کی اُس کھیپ کو حملے کا نشانہ بنایا، جو ہمسایہ لبنان میں شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے چھاپہ ماروں کے لیے جا رہی تھی۔

https://p.dw.com/p/18SIF
FILE - An archive photograph dated 25 June 2009 shows an Israel F-16 jet fighter as it takes off from an air force base in southern Israel during an exercise. The Syrian Army said that Israeli aircraft struck "centres for scientific research" Wednesday, January 30, 2013 north-west of Damascus, near the Lebanese border, killing two people and wounding five. EPA/JIM HOLLANDER +++(c) dpa - Bildfunk+++
Israelischer Kampfjetتصویر: picture-alliance/dpa

اسرائیلی اہلکار نے یہ تفصیلات اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتائیں جبکہ خود اسرائیلی حکومت نے ابھی اس کارروائی کی باقاعدہ ذمے داری قبول نہیں کی ہے اور نہ ہی اس واقعے کے عمل میں آنے کی تصدیق کی ہے۔

اسرائیل بہت پہلے سے واضح طور پر یہ کہہ چکا ہے کہ وہ ہر صورت میں شام کے جدید ہتھیاروں کو، جن میں صدر بشار الاسد کا کیمیاوی ہتھیاروں کا مبینہ ذخیرہ بھی شامل ہے، شیعہ حزب اللہ ملیشیا تک پہنچنے نہیں دے گا، خواہ اس کے لیے اُسے طاقت ہی استعمال کیوں نہ کرنی پڑے۔

شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے عسکریت پسندوں کی سالانہ پریڈ کا ایک منظر
شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے عسکریت پسندوں کی سالانہ پریڈ کا ایک منظرتصویر: Mahmoud Zayyat/AFP/Getty Images

حزب اللہ کو اسرائیل کے کٹر حریف ایران کی پشت پناہی حاصل ہے اور اس شیعہ ملیشیا نے 2006ء میں اس یہودی ریاست کے خلاف ایک غیر فیصلہ کن جنگ لڑی تھی، جس کے بعد سے اسرائیل اس ملیشیا کو ایک امکانی خطرے کے طور پر دیکھتا ہے۔ اسرائیلیوں کو یہ بھی خدشہ ہے کہ اسد کا تختہ الٹنے کی صورت میں شام کے مسلمان باغیوں کے ہتھیاروں کا رُخ اسرائیل کی جانب بھی مڑ سکتا ہے۔

اس سے پہلے ایک علاقائی سکیورٹی ذریعے نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ شام کے کیمیاوی ہتھیاروں کا کوئی مرکز جمعہ تین مئی کو کیے جانے والے اس حملے کا ہدف نہیں تھا۔ اس ذریعے نے بتایا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی سکیورٹی کابینہ نے جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب منعقدہ ایک خفیہ اجلاس میں اس حملے کی منظوری دی تھی۔

ایک امریکی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا کہ حملے کا ہدف ایک عمارت کو بنایا گیا تھا۔ امریکی ٹی وی چینل سی این این نے اس امریکی اہلکار کے حوالے سے مزید بتایا کہ یہ حملہ جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب ہوا اور یہ کہ اس دوران اسرائیلی جیٹ طیارے شام کی فضائی حدود میں داخل نہیں ہوئے۔ اسرائیلی فضائیہ کے پاس ’اسٹینڈ آف‘ کہلانے والے بم ہیں، جو فائر کیے جانے کے بعد زمین کے اوپر درجنوں کلومیٹر تک کی پرواز کرنے کے بعد جا کر ہدف کو نشانہ بناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل شام کے اندر واقع کسی ہدف کو اپنی سرزمین یا پھر ہمسایہ لبنان سے بھی نشانہ بنا سکتا ہے۔

2006ء میں جنگ کے دوران اسرائیلی توپخانے سے جنوبی لبنان کی جانب گولہ داغے جانے کے فوراً بعد کا منظر
2006ء میں جنگ کے دوران اسرائیلی توپخانے سے جنوبی لبنان کی جانب گولہ داغے جانے کے فوراً بعد کا منظرتصویر: AP

لبنانی حکام کا کہنا ہے کہ جمعرات اور جمعے کی درمیان شب اُن کے علاقے کے اوپر اسرائیلی فضائیہ کی غیر معمولی طور پر زیادہ سرگرمیاں ریکارڈ کی گئیں۔ ایک لبنانی سکیورٹی ذریعے نے کہا کہ اُس کا پہلا تاثر یہ تھا کہ اسرائیلی طیارے شام اور لبنان کے درمیان ہتھیاروں کی نقل و حمل کی نگرانی کر رہے ہیں۔

اُدھر شامی حکومتی ذرائع نے ایسے کسی حملے کے حوالے سے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔ اقوام متحدہ میں شامی سفیر بشار الجعفری نے روئٹرز کو بتایا:’’ابھی مجھے ایسے کسی حملے کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔‘‘

دوسری جانب فری سیریئن آرمی کے ایک ترجمان اور کمانڈر قاسم سعد الدین نے کہا:’’ہماری معلومات کے مطابق ایک ایسے قافلے کو اسرائیلی حملے کا نشانہ بنایا گیا، جو حزب اللہ کو میزائل فراہم کر رہا تھا۔ ابھی حملے کے مقام کی درست طور پر تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔‘‘ ایک اور باغی کے مطابق، جس نے اپنا نام مخفی رکھنے کو کہا، اسرائیلی ایف سولہ جیٹ طیاروں نے طیارہ شکن میزائل لے کر جانے والے قافلے کو نشانہ بنایا تھا۔

(aa/km(reuters