1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں امریکی فضائی کارروائی میں شامل نہیں ہوں گے، جرمنی اور برطانیہ

عدنان اسحاق12 ستمبر 2014

جرمنی اور برطانیہ نے کہا ہے کہ وہ شام میں امریکی فضائی کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے۔ ان دونوں ممالک کے مطابق وہ اسلامک اسٹیٹ کی دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے دیگر اقدامات پر غور کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1DB4h
تصویر: Tobias Schwarz/AFP/Getty Images

جرمنی اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ نے کہا ہے کہ اُن کے ممالک شام میں اسلامک اسٹیٹ ’ آئی ایس‘ کے خلاف فضائی حملوں میں شامل نہیں ہوں گے۔ دونوں وزرائے خارجہ کایہ بیان امریکی صدر باراک اوباما کے اُس منصوبے کے اعلان کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں اوباما نے آئی ایس کے خلاف امریکی پالیسی کی وضاحت کی ہے۔

اس تناظر میں جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائر نے کہا کہ جرمنی کو اس امر کا بخوبی اندازہ ہے کہ آئی ایس خطے کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے اور یہ دہشت گرد تنظی مسلسل پیش قدمی کر رہی ہے۔ اشٹائن مائر کے بقول ’’جرمنی نے کرد جنگجوؤں کو اسلامک اسٹیٹ کے خلاف مسلح کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسی وجہ سے وہ فضائی حملوں کے امریکی منصوبے کو مسترد کرتے ہیں۔ ’’ ہم سے کسی نے اس بارے میں پوچھا نہیں ہے اور نہ ہم اس میں شامل ہونے کا کوئی ارادہ رکھتے ہیں‘‘۔

Philip Hammond und Frank-Walter Steinmeier
تصویر: picture alliance/AP Photo/M. Sohn

اسی طرح برطانوی وزیر خارجہ فلپ ہیمنڈ نے کہا کہ برطانوی پارلیمان گزشتہ برس ہی شام میں کسی فضائی کارروائی میں شامل ہونے کی مخالفت کر چکی ہے۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر واضح انداز میں کہا ’’ ہم کسی ایسے منصوبے کا حصہ نہیں بنیں گے‘‘۔

دمشق حکومت نے بھی شام میں آئی ایس کو نشانہ بنانے کے امریکی اعلان پر تنقید کی ہے۔ شام میں قومی مصالحتی امور کے وزیر علی حیدر نے کہا کہ حکومت کو شامل کیے بغیر اگر کوئی بھی کارروائی کی جاتی ہے تو اسے شام پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق شام میں کسی قسم کی فوجی یا غیر فوجی کارروائی کرنے سے پہلے ملکی حکومت کی رضامندی حاصل کرنا لازمی ہے۔

شامی صدر بشارالاسد کے انتہائی قریبی حلیف ملک روس نے بھی امریکی پالیسی کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔ روسی وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق ’’عالمی سلامتی کونسل میں موزوں مذاکرات کیے بغیر ایسا کوئی بھی اقدام جارحیت اور عالمی ضوابط کی صریحاً خلاف ورزی ہو گی۔‘‘

دوسری جانب شامی اپوزیشن نے امریکی فیصلے کو سراہتے ہوئے واشنگٹن حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملکی صدر بشارالاسد کے خلاف بھی کارروائی کرے۔ اسی طرح بغداد حکام نے بھی شام میں آئی ایس کو نشانہ بنانے کی امریکی پالیسی کو سراہا ہے۔ صدر باراک اوباما پہلے ہی 475 فوجی اہلکار عراق روانہ کر چکے ہیں، یہ لوگ مقامی فورسز کو تربیت دینے کے علاوہ عراق میں امریکی سفارت خانے کی حفاظت پر مامور ہیں۔ امریکی منصوبے کے مطابق شام میں آئی ایس کے زیر قبضہ علاقوں کو نشانہ بنایا جائے گا اور شامی باغیوں کی صلاحیتوں کو مزید موثر بنانے پر توجہ دی جائے گی۔