شام میں اسلامک اسٹیٹ اور القاعدہ کے درمیان معاہدہ، ذرائع
14 نومبر 2014ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ان دونوں سنی شدت پسند تنظیموں کے رہنماؤں نے شمالی شام میں گزشتہ ہفتے ہونے والی ایک ملاقات میں ایک ایسے منصوبے پر اتفاق کیا، جس کے تحت ان گروہوں سے وابستہ عسکریت پسند ایک دوسرے پر حملے نہیں کریں گے اور مستقبل میں اپنے مخالفین کے خلاف مشترکہ کارروائیاں کریں گے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے شامی اپوزیشن کے ایک اعلیٰ عہدیدار اور باغیوں کے ایک کمانڈر کے حوالے سے ان اطلاعات کے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ ایسے کسی معاہدے سے شام میں اعتدال پسند اپوزیشن مزید کمزور ہو سکتی ہے۔
ایسا کوئی معاہدہ واشنگٹن انتظامیہ کے لیے بھی پریشانی کا باعث بن سکتا ہے، جو عراق اور شام میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف مسلسل فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہے اور شمالی شام میں امریکی قیادت میں جاری ان اتحادی فضائی کارروائیوں میں القاعدہ سے وابستہ گروہ النصرہ فرنٹ کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق شام کی اعتدال پسند اپوزیشن سے وابستہ باغی کمزور بھی ہیں اور غیرمنظم بھی جب کہ ان کا مقابلہ اسلامک اسٹیٹ اور القاعدہ کے عسکریت پسندوں سے ہے، جو نہ صرف زبردست تربیت یافتہ ہیں بلکہ ان کے پاس جدید ترین ہتھیار بھی موجود ہیں۔ اگر ان دونوں جہادی تنظیموں کے درمیان ایسا کوئی معاہدہ طے پا چکا ہے اور یہ دنوں گروہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کارروائیوں پر متفق ہو گئے ہیں، تو یہ خبر شام میں دیگر اپوزیشن گروپوں کے لیے تباہ کن ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ اسلامک اسٹیٹ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قبضہ کیے ہوئے ہے اور اس گروہ نے اپنے مخالفین کے سر قلم کرنے سمیت بربریت کی ایک خوفناک مہم شروع کر رکھی ہے۔ دوسری جانب القاعدہ سے وابستہ گروہ النصرہ فرنٹ ہے، جو شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے لیے فعال رہا ہے، تاہم گزشتہ ایک برس سے یہ دونوں گروپ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے اور مختلف علاقوں پر اپنے قبضے کی کوشش میں ایک دوسرے کے خلاف جھڑپوں میں مصروف رہے ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے گزشتہ ماہ کے اختتام پر اشارے دیے تھے کہ ان دونوں دہشت گرد گروپوں کے درمیان متعدد علاقوں میں مقامی سطح پر معاہدے عمل میں آ رہے ہیں، تاہم یہ نیا معاہدہ شمالی شام میں ان دونوں جہادی تنظیموں کے درمیان گزشتہ ایک برس سے زائد عرصے سے جاری عداوت اور لڑائی کے خاتمے کا باعث بن سکتا ہے۔ تاہم ایسوسی ایٹڈ پریس کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کے باوجود دونوں گروہ ایک دوسرے میں ضم ہونے یا کوئی وسیع تر اتحاد بنانے پر رضامند دکھائی نہیں دیتے، جس سے ان کے درمیان پائی جانے والی خلیج کی گہرائی کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔