شام مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن فوری طور پر بند کرے، اقوام متحدہ
23 اگست 2011مغربی طاقتوں کی طرف سے بشار الاسد سے اقتدار چھوڑ دینے کے مطالبات کیے جا رہے ہیں، تاہم شامی صدر بشار الاسد نے سرکاری ٹی وی چینل پر دیے گئے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں نہ صرف یہ مطالبات مسترد کر دیے بلکہ کہا کہ شام میں مسئلہ سیاسی ہے، تاہم ’مسلح افراد‘ سے نمٹنے کے لیے سکیورٹی فورسز موجود ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب اقوام متحدہ کا ایک مشن شام کے دورے پر ہے، حمص میں سکیورٹی فورسز نے مزید تین افراد کو ہلاک کر دیا ہے۔ شام میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق رواں برس مارچ کے وسط سے اب تک سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں 22 سو جمہوریت پسند مارے جاچکے ہیں۔
فرانسیسی وزیرخارجہ Alain Juppe نے بھی پیر کے روز اپنے ایک بیان میں پیشن گوئی کی کہ بشار الاسد بھی معمر قذافی کی طرح طاقت کے ذریعے اقتدار سے الگ کر دیے جائیں گے۔
دریں اثناء حقوق انسانی کی تنظیموں نے بتایا کہ پیر کے روز سکیورٹی فورسز نے کم از کم دس افراد کو شام کے مختلف علاقوں میں ہلاک کیا۔ اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں نے بھی شامی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے مظاہرین کے خلاف رواں برس مارچ سے ’گولی مار کر قتل کر دو‘ کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی سربراہ ناوے پلے نے جنیوا میں ادارے کے اجلاس میں کہا، ’پرامن مظاہرین کے خلاف ظالمانہ کارروائیاں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، ہم سے معاملے پر ہمہ وقت نگاہ رکھنے کا مطالبہ کرتی ہیں۔‘‘
دوسری جانب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے بھی کہا ہےکہ بشار الاسد اپنے وعدوں کا پاس رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔ انہوں نےکہا کہ گزشتہ ہفتے ٹیلی فون پر گفتگو کے دوران انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ مظاہرین کے خلاف فوجی کارروائیاں نہیں ہوں گی، تاہم ایسا نہیں ہوا۔
’’پریشانی کی بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے لفظوں کا پاس نہیں رکھا۔ متعدد عالمی رہنما ان (بشار الاسد) سے مسلسل کہہ رہے ہیں کہ وہ فوجی آپریشن بند کر دیں اور اپنے ہی لوگوں کو ہلاک کرنے سے باز رہیں۔‘‘
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : شادی خان سیف