1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام اور لبنان میں ایران کے مفادات

ڈیانا ہودالی / امتیاز احمد22 نومبر 2013

جب بھی اسد حکومت کو مدد کی ضرورت پڑی ہے، ایرانی حمایت یافتہ تنظیم حزب اللہ نے اپنے ہزاروں مسلح جنگجو شام بھیجے ہیں۔ اسی وجہ سے شام کی خانہ جنگی بیروت کی گلیوں تک پہنچ چکی ہے۔

https://p.dw.com/p/1AMFA
تصویر: Anwar Amro/AFP/Getty Images

شامی فوجی اپنے ہمسایہ ملک لبنان کی شیعہ تنظیم حزب اللہ کے جنگجوؤں کے ساتھ مل کر دمشق اور حلب کے ان مضافاتی علاقوں میں پیش قدمی کر رہے ہیں، جن پر شامی باغی قبضہ کر چکے تھے۔ لبنان کے سنی گروپ بھی باغیوں کی مدد کر رہے ہیں لیکن حزب اللہ کے مقابلے میں یہ کم منظم اور کم طاقتور ہیں۔ بیروت میں جرمنی کی امدادی تنظیم ہائنرش بوئل فاؤنڈیشن کی ڈائریکٹر بینٹے شِلر کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ لبنان شام کے بحران میں اپنی گردن تک پھنس چکا ہے۔

’لبنان کو استعمال نہ کیا جائے‘

گزشتہ منگل کو لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ایرانی سفارت خانے کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس کے نتیجے میں ایرانی سفارتی اہلکاروں سمیت 23 افراد مارے گئے تھے۔ یہ لبنانی سیاستدانوں کے لیے ایک واضح پیغام تھا۔ یہی وجہ ہے کہ لبنانی وزیر اعظم نجیب میقاتی نے کہا کہ ایک دوسرے کو سیاسی پیغامات پہنچانے کے لیے لبنان کو استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔

تشدد پھیلنے کا خطرہ

مئی 2013ء میں یہ خبریں منظر عام پر آئی تھیں کہ حزب اللہ اسد حکومت کا ساتھ دے رہی ہے۔ تب سے شیعوں اور سُنیوں کے مابین تشدد میں اضافے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ ایک طرف ایران، حزب اللہ اور شام کے علوی صدر اسد ہیں تو دوسری جانب سعودی عرب، قطر اور ترکی۔

بینٹے شِلر کے مطابق دونوں مذہبی گروپوں میں اختلافات تو ہمیشہ ہی سے موجود رہے ہیں لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ شیعہ اور سُنی ماضی میں پرامن طریقے سے ایک ساتھ رہتے آئے ہیں، ’’اب معاملہ طاقت کی تقسیم کا ہے، جس میں ایران اور سعودی عرب ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔‘‘

Explosion in Beirut
گزشتہ منگل کو لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ایرانی سفارت خانے کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس کے نتیجے میں ایرانی سفارتی اہلکاروں سمیت 23 افراد مارے گئے تھےتصویر: Reuters

سن 1979ء کے انقلاب ایران کے بعد سے سعودی عرب کی توجہ ایران پر مرکوز ہے۔ ایران مشرق وسطیٰ میں اپنا قائدانہ کردار بڑھانا چاہتا ہے اور تب سے سعودی عرب اس کے اثر و رسوخ میں کمی کا خواہش مند ہے۔ جرمن دارالحکومت برلن میں قائم تھنک ٹینک ایس ڈبلیو پی سے منسلک پروفیسر والٹر پوش کا کہنا ہے کہ ایران کا اس خطے کے شیعوں سے تاریخی تعلق ہے، جسے توڑا نہیں جا سکتا۔ والٹر پوش کے مطابق ایران کا اس خطے سے براہ راست رابطہ سن 1982ء میں ہوا، جب ایران نے اپنا انقلابی نظریہ برآمد کیا اور حزب اللہ وجود میں آئی۔ والٹر پوش کہتے ہیں، ’’بنیادی طور پر حزب اللہ خطے میں ایرانی کردار کی قانونی حیثیت کے لیے کام کر رہی ہے۔‘‘

عرب دنیا میں شام گزشتہ تین دہائیوں سے اسلامی جمہوریہ ایران کا مضبوط اتحادی ہے۔ یہ ایک ایسا اتحاد ہے، جس کی جڑیں 1980 سے 1988 تک جاری رہنے والی ایران عراق جنگ سے ملتی ہیں۔

اسد حکومت کی فکر

جہاں سعودی عرب اسد حکومت کے خلاف برسر پیکار باغیوں کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے، وہاں حزب اللہ اپنے فوجی مشیر، پیسہ اور ہتھیار اسد حکومت کو فراہم کر رہی ہے۔ والٹر پوش کے مطابق تہران حکومت صدر اسد کے مستقبل کے بارے میں بہت ہی فکر مند ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’اگر شام میں اسد حکومت کا خاتمہ ہوتا ہے اور سُنی انتہا پسند حکومت میں آ جاتے ہیں تو حزب اللہ واضح طور پر الگ تھلگ ہو کر رہ جائے گی۔‘‘

حزب اللہ کی طاقت میں کمی اور اسد حکومت کے خاتمے کی صورت میں ایران کے لیے اس خطے پر اپنے اثر و رسوخ کو برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا۔

تعلقات میں بہتری

ایران اور حزب اللہ نے بیروت میں ہونے والے بم دھماکوں کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہرایا ہے۔ والٹر پوش کے مطابق ایران کا یہ پہلا رد عمل اس کی حکمت عملی کا حصہ ہے، ’’ایران عوامی سطح پر سعودی عرب پر الزام عائد کرنے سے پرہیز کرے گا کیونکہ ایران اس وقت سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے لیے کام کر رہا ہے۔‘‘

تجزیہ کاروں کے مطابق ایران نہیں چاہتا کہ لبنان کی صورتحال مزید خراب ہو۔ بینٹے شِلر کے بقول، ’’ایران مزید کسی بڑے تنازعے کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔ شام اس کے لیے پہلے ہی کافی ہے۔‘‘