1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شارک کے پروں کا سوپ، آبی حیات کے لیے خطرہ بنتا ہوا

9 جنوری 2012

دنیا بھر میں چین کی مشہور ڈش شارک مچھلی کے پروں یا فِنز سے بنایا گیا سوپ انتہائی مقبول ہے، اسی لیے شارک کے ان پروں کی طلب بھی بہت زیادہ ہے۔ تاہم ماحول دوست کارکن شارک کے شکار پر تحفظات رکھتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/13gZj
تصویر: picture-alliance/dpa

ماہی گیری کو خیر باد کہہ دینے والا باسٹھ سالہ ساڈا فال ابھی تک پر امید ہے کہ ’شارک فن‘ اس کی غربت کو ختم کرنے کے لیے مدد گار ثابت ہوں گے۔ اب وہ خود تو نہیں لیکن اس کے دو بیٹے شارک کا شکار کرتے ہیں اور اس مچھلی کے پَر فروخت کرتے ہیں۔ ساڈا فال شارک کے ان fins یا پروں کو ’سونا‘ قرار دیتا ہے۔

دنیا بھر میں چین کی مشہور ڈش شارک مچھلی کے پروں یا فِنز سے بنایا گیا سوپ انتہائی مقبول ہے اور اسی لیے شارک کے ان پروں کی طلب بھی بہت زیادہ ہے۔ تاہم ماحول دوست کارکن شارک کے شکار پر تحفظات رکھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس طرح سمندری حیات کو ایک نظام میں رکھنے کے لیے انتہائی مددگار شارک مچھلی کے ناپید ہونے کے نتیجے میں تباہ کن نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ساڈا فال نے بتایا کہ شارک فن جیسے ہی ساحل پر پہنچتے ہیں تو اس نایاب جنس کے خریدار فوری طور پر انہیں لے جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ شارک مچھلیوں کے یہ پَر زیادہ دیرتک وہاں نہیں رکھے جاتے کیونکہ یہ انتہائی قیمتی ہیں۔

Kleiner Schwarzspitzenhai
شارک مچھلیوں کے غیر قانونی اور بے تحاشا شکار کی وجہ سے یہ سمندری جانور ناپید ہونے کے خطرات سے دوچار ہو چکا ہےتصویر: pic

مغربی افریقہ میں سینیگال میں سینٹ لوئس ایک ایسا ساحلی علاقہ ہے، جہاں شارک مچھلیوں کا شکار بہت زیادہ کیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے سمندر کے حیاتیاتی تنوع کے نظام کو محفوظ بنانے کے لیے یہ انتہائی اہم جاندار بہت تیزی سے ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اسی بات کا اظہار ساڈا فال نے بھی کیا۔ وہ کہتا ہے کہ تین چار دہائیاں قبل شارک کا شکار بہت عام تھا لیکن اب اس میں کمی آ گئی ہے۔ شکار کی کمی کی وجہ یہ ہے کہ اب وہاں شارک مچھلیوں کی تعداد بہت کم ہو گئی ہے اور اسے شکار کرنے کے لیے بہت زیادہ وقت اور وسائل درکار ہوتے ہیں۔

ماہر حیاتیات اور افریقہ کے زیریں صحارا کہلانے والے علاقے میں شارک مچھلیوں کے تحفظ کے لیے سرگرم Mika Diop کہتے ہیں کہ اس بات کا انحصار مچھلی کی قسم پر ہوتا ہے کہ اس کے fins کی فی کلو قیمت کیا ہو گی۔ وہ بتاتے ہیں کہ عام طور پر یہ فِنز 150 یورو فی کلو کے برابر قیمت پر فروخت کیے جاتے ہیں۔

ان پروں کو فروخت کرنے والے بھی نہیں جانتے کہ یہ فِن یا پَر کس قدر قیمتی ہیں۔ ایشیا کے کچھ ریستورانوں میں شارک فن سے بنے سوپ کا ایک پیالہ سو ڈالر تک میں بیچا جاتا ہے۔ ساڈا فال کہتا ہے کہ وہ ان مچھلیوں کو پکڑتا تو ہے مگر وہ شارک مچھلیوں کے پروں سے تیار کردہ سوپ کا ایک پیالہ بھی خریدنے کی سکت نہیں رکھتا۔

مختلف اعداد و شمار کے مطابق مغربی افریقہ میں شارک مچھلیوں کا شکار 1970ء میں شروع ہوا تھا اور نوے کے عشرے میں شارک فِن کا کاروبار اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا۔ تاہم 2003ء میں اس کاروبار میں تنزلی پیدا ہو گئی تھی، جس کی وجہ مغربی افریقہ کے ساحلی علاقوں میں ان مچھلیوں کی قلت بتائی جاتی ہے۔

Future Now Projekt Bionik Bild 5 Hai
مختلف اعداد و شمار کے مطابق مغربی افریقہ میں شارک مچھلیوں کا شکار 1970ء میں شروع ہوا تھاتصویر: picture alliance/ Photoshot

خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے Mika Diop نے بتایا کہ شارک مچھلیوں کے غیر قانونی اور بے تحاشا شکار کی وجہ سے یہ سمندری جانور ناپید ہونے کے خطرات سے دوچار ہو چکا ہے۔ ان کے بقول یہ مچھلیاں افزائش نسل کے لیے تیار ہونے کے لیے دس برس سے زائد کا عرصہ لیتی ہیں، اسی لیے ان میں افزائش نسل کی شرح انتہائی کم ہوتی ہے۔

ساڈا فال بھی ان مچھلیوں کی تعداد کم ہونے پر پریشان ہے۔ وہ کہتا ہے کہ وہ چھوٹی شارک مچھلیاں پکڑنے پر بھی خوش ہے کیونکہ اگر وہ انہیں نہیں پکڑے گا تو کوئی اور انہیں شکار کر لے گا۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں