1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شاخوں پہ گُل ہیں چاک گریباں کیے ہوئے

14 جون 2022

حال ہی میں جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ فار ویمن، اَمن اور سلامتی کے مرکز کی سن دو ہزار اکیس کی رپورٹ نے علاقائی درجہ بندی میں جنوبی ایشیا کو آخری درجہ دیا۔

https://p.dw.com/p/4Cey8
DW Urdu Bloger Swera Khan
تصویر: Privat

علاقے کے اِنتہا درجے کے قانونی امتیاز، گھریلو تشدّد اور امتیازی صنفی رویوں کی وجہ سے یہ خطہ پہلی بار افریقہ کے پس ماندہ ترین علاقوں سے بھی پیچھے چلا گیا ہے۔ ترقی یافتہ مغربی اور ترقی پذیر مشرقی معاشروں کی بُنت میں نمایاں فرق ہے اور ان میں سماجی اَقدار کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ جدّت پسندی اور روایت پسندی کے درمیان خیالات کا ٹکراؤ نئی بات نہیں۔ ایک لہر ہے، جو ہمارے معاشرے میں تقسیم کو پہلے سے گہرا کرتی چلی جا رہی ہے۔ 

ایسے میں اگر کسی واقعے کو لے کر مخالف کیمپ کے تمام دلائل کو جھوٹا اور بے بُنیاد ثابت کرنے کی کوشش کی جائے تو اس پر حیرت کیسی؟ جہاں بُنیادی سوچ میں اس قدر تفاوت ہو وہاں اپنے اپنے مؤقف کے حق میں موجود دلائل کا انبار ہمہ وقت دست یاب رہتا ہے۔ 

جدّت اور رجعت کی اس بحث کا تازہ موضوع اداکار جونی سِی ڈیپ اور ایمبر لورا ہرڈ کے درمیان طلاق اور عدالتی لڑائی ہے۔ 

دیکھا جائے تو، جہاں اس فیصلے میں ایمبر کے اپنے سابق شوہر جونی ڈیپ کے خلاف گھریلو تشدّد کے الزامات کو امریکی عدالت نے مسترد کیا، وہیں ایمبر کے چند الزامات درست بھی مانے گئے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں زور اس نکتے پر ہے چوں کہ ایمبر یہ مقدمہ ہار گئی ہیں اور جونی ڈیپ کے موقف کو عدالت نے قبول کر لیا ہے، اس وجہ سے حقوقِ نسواں کا سارا بیانیہ سِرے سے بے بُنیاد ہے۔ 

نظریات سے اختلاف کیجیے مگر انصاف کے ساتھ۔ معاشرتی استحصال کا شکار عورت کی چیخ کے جواب میں جونی ڈیپ اور ایمبر ہرڈ کی مثال دینے سے پہلے عورت سے روا معاشرتی برتاؤ کا اِدراک ضروری ہے۔ جونی ڈیپ اور ایمبر کے معاملے میں ظالم اور مظلوم کی نشان دہی ایک نظام قانون نے کی ہے، جہاں فریقین کو الزامات کے خلاف دفاع کا بھر پور موقع دیا گیا تھا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ ایک یا اس سے ملتے جلتے چند اور واقعات مشرقی معاشروں میں خواتین کے ساتھ امتیازی برتاؤ جیسی حقیقت کو جھٹلانے کے لیے کافی ہیں؟

ہم ایک ایسے خطے کے باسی ہیں، جہاں آج بھی عورت کے کردار کا فیصلہ اس کے لباس اور لباس کی لمبائی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ سیاسی رہ نُما بھی متاثرین پر الزام تراشی میں اس حد تک چلے گئے کہ خواتین کے لباس یا ان کی کسی جگہ پر موجودگی کو جنسی زیادتی کا جواز قرار دیا۔ جہاں مذہبی علما اور دائیں بازو کے گروہ خواتین کے جائز حقوق کی مخالفت صرف الفاظ سے نہیں بلکہ دھمکیوں سے کرتے ہیں۔

 صنفی امتیاز کے بارے میں ان عمومی رویوں کا ہی نتیجہ ہے کہ جسمانی اور جذباتی استحصال اور اخلاقی پولیسِنگ، تشدّد اور بدسلوکی کو معمول سمجھا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اکثریت تقدیر کا لکھا سمجھ کر اس عذاب کو سہنے پر مجبور ہے۔ وہ اس کے خلاف آواز بلند کرنے کی ہمت کر بھی لیں تو کیا اس پکار کو سننے کے لیے کوئی امریکی عدالت موجود ہے؟ 

زندگی تصادم کا نہیں بلکہ سمجھنے، سمجھانے اور باہم مل کر چلنے کا نام ہے۔ عورت کی طرف سے برابری کے حقوق اور سماجی انصاف کے مطالبے کا مطلب مردوں سے نفرت نہیں، عدم تحفظ کے خلاف آوازِ بغاوت نہیں، بلکہ احتجاج ہے۔ 

جب تک عورت کو مرد کی ملکیت کے بجائے برابر کا انسان نہیں سمجھا جاتا، خاندان میں بیٹی اور بیٹے کے ساتھ یکساں سلوک کی ریت قائم نہیں ہوتی، غیرت کے مروج پیمانوں کو عورت کے اپنی زندگی کے متعلق فیصلوں سے الگ نہیں کیا جاتا، اسے گھریلو تشدّد اور قدم قدم پر جذباتی و جسمانی استحصال کو خاموشی سے سہنے کی تاکید ختم نہیں ہوتی، معاشی خود مختاری کے حصول کے لیے یکساں مواقع میسر نہیں آتے، سب سے بڑھ کر جب تک اسے با عزّت زندگی گزارنے کے لیے کسی مرد رشتے کی محض سیکورٹی گارڈ کی حیثیت سے ضرورت باقی ہے، تب تک عورت کے احتجاج کے جواب میں امریکی عدالت کے ایک فیصلے کی مثال کو صرف ''چیری پِکِنگ‘‘ ہی سمجھا جائے گا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔