’سیو ڈی چلڈرن‘ کیا پاکستانی مفادات کے خلاف مصروف عمل تھا؟
13 جون 2015پاکستانی حکومت نے بچوں کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی امدادی تنظیم ’سیو دن چلڈرن‘ کے دفاتر کو 11 جون کو بند کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ یہ ادارہ ریاستی مفادات کے خلاف کام کرنے کا مرتکب ہوا ہے۔ تاہم دوسری طرف انسانی حقوق کے کارکنان کے مطابق حکومت اپنے ’مشکوک‘ اعمال پر پردہ ڈالنے کی خاطر ملکی سول سوسائٹی کو اپنے زیر اثر لانا چاہتی ہے۔
امریکی حکومت نے بھی پاکستان میں اس عالمی ادارے کے دفاتر کو سیل کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان جان کربی کے بقول سیو دی چلڈرن ایک طویل عرصے سے حکومت پاکستان کے مکمل تعاون کے ساتھ شفاف طریقے سے کام کر رہی ہے۔ واشنگٹن کے مطابق اسلام آباد کے اس فیصلے سے پاکستان کو ہی نقصان پہنچے گا۔ سیو دی چلڈرن کے مطابق حکومت نے امدادی رقوم کو پاکستان آنے سے روکنے کی خاطر اقدامات شروع کر دیے ہیں، جن کی وجہ سے پاکستان کے لاکھوں بچوں اور ان کے گھرانوں کو امداد کی فراہمی منقطع ہو جائے گی۔
سیو دی چلڈرن پاکستان نے جمعہ 12 جون کو جاری کیے گئے اپنے بیان میں تصدیق کی کہ اسلام آباد میں قائم ان کے دفتر کو سیل کر دیا گیا، ’’اس حوالے سے سیو ڈی چلڈرن کو کوئی نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔ ہم اس عمل کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور ہم اپنے ان سنجیدہ تحفظات کو اعلیٰ ترین سطح پر پہنچائیں گے۔‘‘ یہ امر اہم ہے کہ یہ عالمی ادارہ گزشتہ 35 برس سے پاکستان میں فعال تھا جبکہ اس کے مقامی عملے کی تعداد 1200 کے قریب ہے۔
سماجی آزادی کو درپیش خطرات
پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو میں کہا ہے کہ حکومت کو بتانا چاہیے کہ سیو دی چلڈرن کس قسم کی ریاست مخالف کارروائیوں میں ملوث رہی ہے۔ انسانی حقوق کے اس سرکردہ رکن نے مزید کہا کہ یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ اس عالمی ادارے کے شکیل آفریدی کے ساتھ کیا تعلقات تھے۔ ڈاکٹر مہدی حسن نے یہ بھی کہا کہ غیر سرکاری اداروں کو بھی اپنے کاموں میں شفافیت رکھنا چاہیے اور میڈیا کو باقاعدہ بنیادوں پر اپنی کارروائیوں کے بارے میں مطلع کرنا چاہیے۔
تاہم کئی دیگر کارکنان کے مطابق حکومت کی طرف سے غیر سرکاری اداروں پر شک کرنے کی ایک تاریخ موجود ہے۔ ان کے مطابق یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ حکومت نے کسی این جی او پر پاکستان کے ’دشمنوں‘ کے لیے کام کرنے کا الزام عائد کیا ہو۔ اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر لاہور میں فعال ایک انسانی حقوق کے کارکن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’حکومت اور فوج سول سوسائٹی پر اعتماد نہیں کرتی ہے۔ پاکستان کے متعدد علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ایک عام سی بات ہیں اور حکام انہیں چھپانے کی کوشش میں ہیں۔ اس لیے حکام نہ صرف آزادی صحافت بلکہ دیگر سماجی آزادیوں پر بھی قدغنیں لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں سیو دی چلڈرن پر لگائی جانے والی پابندیوں کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔‘‘
احتساب کا فقدان
اسلام آباد میں سول سائٹی کے ایک فعال کارکن عثمان قاضی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ غیر سرکاری اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے داخلی معاملات کو منظم انداز میں چلائیں۔ ان کے بقول بالخصوص جن علاقوں میں یہ ادارے کام کر رہے ہیں وہاں ان اداروں کو اپنا احتساب کرنا چاہیے۔ عثمان قاضی کا خیال ہے کہ میڈٰیا، اکیڈیمیا، ٹریڈ ایسوسی ایشنز، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے ایسے دیگر اداروں کو چاہیے کہ وہ اپنے کاموں اور کارروائیوں کو شفاف بنانے کی کوشش کریں۔
عثمان قاضی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ ایک کارکن کے طور پر میں سول سوسائٹی کے کسی ادارے کی غلط کارروائی کی حمایت نہیں کروں گا، بالخصوص ایک ایسا ادارہ جو عالمی سطح پر اچھی ساکھ کا مالک ہو۔ پاکستان کے مختلف مکتب ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ اپنے رابطوں کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ این جی اوز بہت زیادہ غیر مقبول ہیں اور بڑے پیمانے پر لوگ ان پر غصے میں ہیں۔‘‘
آگے کیا ہو گا؟
پاکستانی صحافی عبدل آغا کے مطابق کچھ غیر سرکاری اداروں کے’مشکوک کارروائیوں‘ میں ملوث ہونے جیسے الزامات کا اطلاق پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی پر بہتر انداز میں کیا جا سکتا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں انہوں نے کہا، ’’آئی ایس آئی سے زیادہ مشکوک ادارہ اور کون ہو سکتا ہے۔ بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے؟ شمال مغربی علاقوں میں انتہا پسندی کے خلاف جنگ کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ صرف مشکوک ہی نہیں بلکہ خطرناک بھی ہے۔ فوج اور اس کے ادارے کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں۔‘‘
ایسی اطلاعات ہیں کہ پاکستان میں انیس ایسی دیگر این جی اوز بھی فعال ہیں، جن پر حکومت پابندی عائد کرنا چاہتی ہے۔ ابھی تک حکام نے البتہ ان غیر سرکاری اداروں کے نام عام نہیں کیے ہیں۔ آغا کے بقول، ’’ملکی سول سوسائٹی ریاست کی طرف سے انسانی حقوق کی پامالیوں کو عوامی سطح پر لانے کے لیے پر عزم ہے اور یہ پاکستان میں قابل قبول نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں کہ حکام مںحرفین کی آوازوں کو دبانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔‘‘
سیو دی چلڈرن نامی امدادی ادارہ سن 2012ء سے ہی پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کی زیر نگرانی تھا۔ اس پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ اس کے شکیل آفریدی کے ساتھ روابط رہے ہیں جبکہ یہ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے لیے بھی کام کرتا تھا۔ ستمبر 2012ء میں ہی حکومت پاکستان نے سیو دی چلڈرن کے غیر ملکی عملے کو دو ہفتوں کے دوران ہی ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا تھا۔ تاہم اس اعلان کے ایک ہفتے بعد ہی اسلام آباد نے اپنے اس فیصلے کو مؤخر کر دیا تھا۔
مقامی ذرائع کے مطابق 11 جون کو اس عالمی امدادی ادارے کے دفاتر بند کرنے سے قبل ہی اس ادارے کا غیر ملکی عملہ پاکستان چھوڑ گیا تھا۔ 12 جون کو پاکستانی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی نے واضح کیا کہ کسی غیر سرکاری ادارے کو پاکستان کے قومی مفادات کے خلاف عمل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد حکومت غیر ملکی امدادی تنظیموں کو پاکستان میں خوش آمدید کہتی ہے لیکن انہیں پاکستان کے قوانین اور آئین کا احترام کرنا ہو گا۔