1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سینکڑوں جہادیوں کے پاس جرمن پاسپورٹ ہے، رپورٹ

20 مئی 2018

ایک رپورٹ کے مطابق ایک ہزار سے زائد سخت عقیدے کے جہادیوں کے پاس جرمن پاسپورٹ ہے۔ ان میں سے کئی جرمنی چھوڑ کر شام یا عراق میں دہشت گرد گروپوں کی مدد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2y2Qz
Reda Seyam
تصویر: imago/Christian Mang

جرمن میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق ایک ہزار سے زائد کٹر مسلمان جرمن پاسپورٹ کے حامل ہیں اور ان میں کئی اس وقت شام یا عراق میں دہشت گرد تنظیموں کی مدد کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ انتہائی اہم معلومات جرمن حکومت نے پارلیمنٹ میں بائیں بازو کی سیاسی جماعت کے ایک رکن کے سوال کے جواب میں بتائی ہیں۔

ہیڈ اسکارف والی ٹیچر کو ’پرائمری سطح پر تدریس سے روکنا جائز‘

جرمنی میں سامیت دشمنی، صرف مسلم رجحان نہیں ہے، کادور

نفرت کا مزاج ختم ہونا چاہیے، جرمن وزیر داخلہ

مسلمان بچوں کے اسکارف لینے پر پابندی کا منصوبہ

فنکے میڈیا گروپ کے مطابق جرمن پاسپورٹ کے حامل بہت سارے سخت گیر مسلمان تنازعات کے علاقوں کی جانب روانہ ہو چکے ہیں۔ حکومت نے سلامتی کے اداروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایسے افراد یقینی طور پر ’جہادی‘ قرار دیے جا سکتے ہیں لیکن اس وقت ایسے افراد کی بیرون جرمنی روانہ ہونے کی شرح خاصی کم ہے۔

فنکے میڈیا گروپ کی رپورٹ کے مطابق جرمن پاسپورٹ حاصل کرنے والوں میں 243  کا تعلق ترکی میں کالعدم کردستان ورکرز پارٹی (PKK) اور کردستلان ڈیموکریٹک یونین پارٹی سے ہے۔ جرمنی میں کردستان ورکر پارٹی کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا جا چکا ہے۔

Deutschland Sven Lau alias Abu Adam islamistischer Prediger
سخت عقیدے کا حامل جرمن نو مسلم شفین لاؤ کولون میں ایک مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئےتصویر: Reuters/I. Fassbender

 شام و عراق میں کرد علاقوں کے بعض حصوں میں ابھی بھی ’اسلامک اسٹیٹ’ فعال خیال کی جاتی ہے۔ اس وقت کئی جرمن سخت گیر مسلمان شام، ترکی اور عراق میں جہادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے الزام کے تحت جیلوں میں مقید ہیں۔ کئی مقید جہادیوں کے خاندان کی عورتیں اور بچے واپس جرمنی لوٹ چکے ہیں۔

انگیلا میرکل کی سابقہ حکومت میں ایک تجویز پر اتفاق پایا گیا تھا کہ لوٹنے والے جہادیوں کے پاس اگر دوہری قومیت ہوئی تو ان کی جرمن شہریت کو جہادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی بنیاد پر منسوخ کر دیا جائے۔ بائیں بازو کی سیاسی جماعت اس تجویز کو غیر دستوری خیال کرتی ہے اور اس سے جرمن شہریوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

Berlin Kreuzberg Islamisten Festnahme Razzia IS
رواں برس جرمن دارالحکومت برلن میں گرفتار کیا گیا ایک مسلمان پولیس کے نرغے میںتصویر: Reuters/F.Bensch

دوسری جانب چانسلر انگیلا میرکل کی حکومت کی اتحادی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے بعض ارکان بھی اس دستوری تجویز پر ناراضی کا اظہار کرتے ہیں۔ ان میں ایک اولی گروئٹش ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ تجویز علامتی ہے اور اس کے سیاسی مقاصد ہو سکتے ہیں لیکن ضرورت اس کی ہے کہ ایسے سخت گیر مسلمانوں کو اُن کی سرگرمیوں پر سزا دینے کے ساتھ ساتھ اُن کے بنیاد پرستانہ نظریات کو فوری طور پر تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے۔