1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیاسی عدم استحکام، ملکی معیشت بھی دباؤ کا شکار

6 فروری 2012

پاکستان میں داخلی سلامتی کی خراب صورتحال اور سیاسی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں ملکی معیشت بھی دباؤ کا شکار نظر آتی ہے۔

https://p.dw.com/p/13xtR
تصویر: AP

اسٹیٹ بینک نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں معیشت کو درپیش چیلنجوں اور خطرات سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے ملکی اور غیر ملکی قرضوں کا حصول معیشت پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔

اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق قومی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کا بجٹ میں مقرر کیا گیا 4.2 فیصد کا ہدف بھی 3.4 فیصد تک ہی حاصل ہو پائے گا۔ رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں تجارتی خسارہ بھی گزشتہ سال کے 9.287 ارب ڈالر سے بڑھ کر 11.476 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔

معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر فرخ سلیم نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستانی معیشت کو اس سال جن بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، ان میں بجٹ اور تجارتی خسارہ شامل ہے اور اس کی وجہ حکومتی اخراجات میں بے تحاشا اضافہ ہے۔ انہوں نے کہا،’جو بجٹ آیا تھا، اس میں لگ بھگ ایک کھرب روپے کا خسارہ ظاہر کیا گیا تھا۔ اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے دو راستے رہ جاتے ہیں۔ حکومت یا تو بینکوں سے قرضے لیتی ہے یا پھر کرنسی نوٹ چھاپتی ہے۔ اس وقت یہ دونوں کام ہو رہے ہیں۔ جب بے تحاشا نوٹ چھاپے جاتے ہیں تو پھر افراط زر پیدا ہوتا ہے اور ٹماٹر 80 روپے کلو بکنے لگ جاتے ہیں‘۔

Pakistan Armut
پاکستان میں غربت ایک انتہائی سنگین مسئلہ سمجھا جاتا ہےتصویر: AP

ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق ’جب حکومت بینکوں سے قرضہ لیتی ہے تو نجی شعبے کے پاس نئی مشینری اور فیکٹری لگانے کے لیے پیسے نہیں بچتے اور اگر نجی شعبے کے پاس نئی سرمایہ کاری کے لیے پیسے نہ ہوں تو آبادی میں بے تحاشا اضافہ کہاں سما سکتا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ دوسرا پہلو شاید اس سے بھی سنگین ہے جو ہمارا تجارتی خسارہ ہے، ’نوٹ تو ہم چھاپتے چلے جائیں گے اس کی گنجائش بھی ہے لیکن ہم ڈالر نہیں چھاپ پائیں گے۔ اس وقت اسٹیٹ بینک 16 سے 17 ارب ڈالر زرمبادلہ کے ذخائر ظاہر کر رہا ہے، جس میں سے 4 ارب ڈالر پرائیویٹ بینکوں کے ہیں۔ اس سال ہمیں 5 سے 6 ارب روپے قرضوں کی مد میں ادا کرنے ہیں جبکہ 6 سے 7 ارب روپے کا تجارتی خسارہ ہے اور ہم 8 ارب ڈالر آئی ایم ایف سے قرضہ لے چکے ہیں اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس سال کے آخر میں ڈالر کے ذخائر تقریباً ختم ہو جائیں گے‘۔

اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی معیشت میں مثبت اشارے ، ادارہ جاتی منافع میں اضافہ ، اس کے علاوہ خدمات کے شعبے اور زرعی اجناس کی پیداوار میں بہتری ہے۔

ماہر اقتصادیات ثاقب شیرانی کے مطابق ملک میں توانائی کے بد تری‍ن بحران اور یورپ کے اقتصادی بحران کی وجہ سے گزشتہ نومبر دسمبر میں پاکستانی برآمدات 10 فیصد تک گری ہیں،جس سے ملکی معیشت پر اور دباؤ پڑا ہے۔ انہوں نے کہا، ’یورپ کا بحران پاکستانی برآمدات کو متاثر کر رہا ہے۔ دوسری جانب ایران کی کشیدگی کے سبب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بہت اوپر ہیں۔ اس ساری صورتحال میں معیشت دباؤ میں ہے ۔ اگر زرعی پیداوار میں اضافہ ہو گیا تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں اس کے علاوہ تو مشکل ہی دکھائی دیتی ہے‘۔

ماہرین رواں سال میں معیشت کے لیے مزید دو مثبت چیزیں دیکھ رہے ہیں، ان میں سے ایک تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی کے لائسنسوں کی 7 سے 8 سو ملین ڈالر کے عوض نیلامی شامل ہے جبکہ دوسری جانب امریکا کی طرف سے پاکستان کو قابل ادا بل کی ادائیگی بھی متوقع ہے۔

ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق کراچی اسٹاک ایکسچینج کی اندراج شدہ کمپنیوں کے منافع میں گزشتہ کچھ ماہ سے منافع ظاہر کیا گیا ہے لیکن معاملہ یہ ہے کہ نجی شعبے کے پاس بینکوں سے ادھار لینے کے پیسے نہیں بچیں گے تو وہ نئی مشینری درآمد یا پرآنی کو اپ گریڈ نہیں کر پائیں گے، ایسے میں معیشت میں بہتری امید کم نظر آتی ہے۔

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: عاطف بلوچ