1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سیاحت اور کاروبار کے لیے پسندیدہ منزل دبئی نہیں ریاض، کیسے؟

2 نومبر 2021

سعودی حکومت ملک میں وسیع تر اصلاحات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اور اب چاہتی ہے کہ خطے میں سیر و سیاحت ہو، تفریح یا کاروباری معاملات، سعودی دارالحکومت ہر لحاظ سے دبئی کو پیچھے چھوڑ دے۔

https://p.dw.com/p/42TPU
Saudi Arabien Riad Kulturfestival Salman Illumination
تصویر: Fayez Nureldine/AFP/Getty Images

متحدہ عرب امارات کی ریاست دبئی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر آمد کے بعد مسافر سیاحت سے متعلق ایک جریدہ بلا معاوضہ ساتھ لے جا سکتے ہیں۔ اس جریدے کے نومبر کے لیے شمارے میں بڑے دلچسپ انداز میں سعودی عرب کی تشہیر کی گئی ہے۔ اس جریدے کے ٹائٹل پر دارالحکومت ریاض کے شمال مغربی حصے میں واقع تاریخی شہر درعیہ کے معروف قلعے کی تصویر شائع کی گئی ہے اور ساتھ ہی لکھا ہے، 'سعودی عرب میں خوش آمدید، ایک ایسا سفر جس کا آپ نے تصور بھی نہیں کیا ہو گا‘۔ ساتھ ہی یہ الفاظ بھی درج ہیں، 'ٹائم آوٹ، دبئی‘، جس سے بظاہر مراد یہ ہے کہ ایک بڑے سیاحتی اور کاروباری مرکز کے طور پر اب دبئی کا وقت ختم اور ریاض کا وقت شروع۔

سعودی عرب ميں ہتھيار چلانے کی خاتون ٹرينر اولمپک ميں حصہ لينے کی خواہشمند

تحفظ ماحول کے ليے سعودی ہدف: سن 2060 تک ’کاربن نيوٹرل‘

سورج، سمندر اور جنس مخالف: سعودی معاشرہ بتدریج کھلتا ہوا

سعودی عرب کو ایک عرصے سے ایک انتہائی قدامت پسند معاشرے کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔ تاہم گزشتہ چند سالوں میں ریاض حکومت نے کئی اصلاحات متعارف کرائی ہیں اور کئی ایسے اقدامات کیے ہیں، جن سے خلیج کے اس ملک کی ساکھ بہتر ہو رہی ہے۔ اب حکام کی کوشش ہے کہ ریاض کو ایک ایسے شہر کے طور پر تسلیم کرایا جائے، جہاں سینما گھر ہیں، تھیٹرز ہیں، بڑے بڑے اسپورٹس ایونٹس منعقد ہوتے ہیں اور جہاں بڑے بڑے کاروباری معاہدے بھی طے پاتے ہیں۔

اس اشتہار کے ذریعے سعودی حکومت کی کوشش ہے کہ دبئی کی جگہ ریاض کو اس خطے کا مرکزی شہر بنایا جائے۔ سعودی حکومت نے کئی اور اقدامات بھی کیے ہیں، مثال کے طور پر جن سعودی کمپنیوں کے ہیڈ آفس دبئی میں ہیں، انہیں  اپنے دفاتر ریاض منتقل کرنے کے لیے سن 2024 کے اوائل تک کی مہلت دی گئی ہے۔ بصورت دیگر ان سے کیے گئے سرکاری معاہدے واپس لے لیے جائیں گے۔

حکام کو توقع ہے کہ Regional Headquarters Attraction Program کے تحت اگلی ایک دہائی میں سعودی معیشت کو اٹھارہ بلین ڈالر کا فائدہ ہو گا اور روزگار کے تیس ہزار نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔

گزشتہ برس سعودی عرب میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی مالیت 4.6 بلین ڈالر رہی۔ لیکن اگر اس کا موازنہ متحدہ عرب امارات سے کیا جائے، تو یہ اب بھی بہت کم ہے۔ متحدہ عرب امارات میں گزشتہ برس غیر ملکی سرمایہ کاری کی مجموعی مالیت 13.8 بلین ڈالر رہی تھی۔

سعودی عرب میں تبدیلی کی ہوا اور خواتین

ابھی حال ہی میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ سعودی عرب ايکسپو 2030 ورلڈ فيئر کی ميزبانی ميں دلچسپی رکھتا ہے۔ ولی عہد محمد بن سلمان نے اس بارے ميں گزشتہ ہفتے اعلان کيا اور بتايا کہ اس سلسلے میں باقاعدہ درخواست جمع کرا دی گئی ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان کے بقول ايکسپو 2030 ايک ايسے موقع پر منقعد ہو گی جب رياض حکومت کے وژن 2030 کے پروگرام کے تحت وسيع تر اقتصادی منصوبے بھی پايہ تکميل کو پہنچ رہے ہوں گے اور يہ ايکسپو موقع فراہم کرے گی کہ سعودی عرب اپنے تجربات دنيا کے ساتھ شیئر کر سکے۔ اس وقت ايکسپو متحدہ عرب امارات ميں جاری ہے۔

سعودی عرب میں فیشن شو، خواتین کی جگہ ڈرون طیارے

ع س / م م (اے پی)