1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سکیورٹی معاہدے پر اختلافات برقرار ہیں، ایمل فیضی

عاطف بلوچ22 اکتوبر 2013

اعلیٰ افغان حکومتی اہلکار ایمل فیضی نے کہا ہے کہ امریکا کے ساتھ باہمی سکیورٹی کے معاہدے کے کئی نکات پر ابھی تک اتفاق رائے نہیں ہو سکا ہے۔

https://p.dw.com/p/1A3pB
تصویر: Reuters

افغان حکومت کے ترجمان ایمل فیضی کے اس تازہ بیان سے ایسے امکانات پیدا ہو گئے ہیں کہ افغانستان میں نیٹو کے فوجی مشن کے اختتام پر وہاں تعینات تمام امریکی فوجی واپس وطن بلائے جا سکتے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ دو برس قبل واشنگٹن اور بغداد کے مابین ایسے ہی اختلافات کے باعث عراق میں تعینات تمام تر امریکی فوجی واپس بلا لیے گئے تھے۔

گزشتہ ایک برس سے کابل اور واشنگٹن 2014ء کے بعد افغانستان میں امریکی افواج کی تعیناتی سے متعلق باہمی سکیورٹی کا معاہدہ (بی ایس اے) طے کرنے کی کوشش میں ہیں۔ رواں ماہ افغانستان کا دورہ کرنے والے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کابل میں افغان صدر حامد کرزئی سے ملاقات کے بعد کہا تھا کہ اس معاہدے سے متعلق زیادہ تر نکات پر اتفاق رائے ہو گیا ہے تاہم افغانستان میں تعینات امریکی افواج کو استثنیٰ کے حوالے سے اختلافات برقرار ہیں۔ امریکا کی کوشش ہے کہ اگر کسی امریکی فوجی کو افغانستان میں کسی جرم کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے تو اس کے خلاف امریکا میں مقدمہ چلایا جائے جبکہ افغان حکومت اس مطالبے کے خلاف ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایمل فیضی کے حوالے سے بتایا ہے کہ جب جان کیری افغانستان کا دورہ کر رہے تھے تو اس معاملے کو مذاکرات کا حصہ نہیں بنایا گیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس معاملے کے علاوہ بھی کئی اہم موضوعات ایسے ہیں، جن پر دونوں ممالک میں ابھی تک کوئی اتفاق نہیں ہو سکا ہے، ’’اس معاہدے پر کافی زیادہ کام کیا گیا ہے تاہم یہ ابھی تک حتمی نہیں ہے۔‘‘

Aimal Faizi Pressesprecher des afghanischen Präsidenten Karzai
افغان حکومت کے ترجمان ایمل فیضیتصویر: picture alliance/AP Photo

ایمل فیضی کا کہنا تھا، ’’اگر ہم اس مسودے کو حتمی شکل نہ دے سکے تو اسے لویا جرگہ بھیج دیا جائے گا اور افغان عوام خود ہی اس مسئلے پر کوئی فیصلہ کریں گے۔‘‘ لویا جرگہ یا افغان قبائلی سرداروں کی اسمبلی نومبر میں متوقع طور پر اس معاہدے پر غور کرے گی۔ فیضی نے یہ بھی کہا کہ اگرچہ دونوں ممالک کو اس معاہدے کی ضرورت ہے تاہم افغانستان اس بارے میں جلد بازی نہیں کرنا چاہتا ہے، ’’ صدر (حامد کرزئی) نے کہا ہے کہ وہ اس معاہدے کو حتمی شکل دینے کی جلدی میں نہیں ہیں بلکہ افغانستان کی آئندہ حکومت بھی یہ کام کر سکتی ہے۔‘‘

واشنگٹن حکومت نے کہہ رکھا ہے کہ اگر افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کو افغان قانون سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا جاتا تو یہ ڈیل منسوخ کر دی جائے گی۔ اس ڈیل میں ایک اہم موضوع یک طرفہ امریکی فوجی کارروائی کا بھی ہے۔ فیضی کے بقول یہ معاملہ بھی ابھی تک حل طلب ہے۔ فیضی نے کہا، ’’افغان حکومت ایکشن لے گی۔۔۔ اگر امریکی فورسز یا ان کے اڈوں پر حملہ ہوتا ہے تو امریکی افواج کو جوابی حملے کا حق نہیں ہو گا۔ ہم کسی بھی یک طرفہ فوجی کارروائی کے خلاف ہیں۔‘‘

باعث اختلاف ایک معاملہ افغان افواج کی تربیت کا بھی ہے جب کہ آئندہ برس نیٹو فوجی مشن کے خاتمے کے بعد افغانستان میں امریکی فوجی اڈوں کی تعداد بھی زیر بحث ہے۔ ایمل فیضی نے روئٹرز کو بتایا، ’’ہم نے امریکا کو کہا ہے کہ وہ 9 فوجی اڈے رکھ سکتا ہے۔ اب لویا جرگہ کے پاس اختیار ہے کہ وہ اس تعداد کو کم کر دے یا اسے بڑھا دے۔‘‘

امریکا میں خیال کیا جا رہا ہے کہ سکیورٹی معاہدے کا مسودہ لویا جرگہ میں منظور کر لیا جائے گا۔ اس حوالے سے پیر کے دن امریکی وزیر دفاع چک ہیگل نے کہا تھا کہ اس معاہدے کے حوالے سے پیشرفت مثبت ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید