1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

سکھوں کی خالصتان تحریک کیا ہے؟

20 ستمبر 2023

بھارتی حکومت نے گزشتہ کچھ عرصے میں خالصتان تحریک سے وابستہ بعض رہنماؤں کو گرفتار کیا ہے جبکہ چند ایک قاتلانہ حملوں میں مارے بھی گئے۔ اسی تحریک کی وجہ سے بھارت کی بعض ممالک کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی ہے۔

https://p.dw.com/p/4WaTt
Kanada, BC, Surrey | Khalistan-Flaggen und ein Plakat sind vor dem Guru Nanak Sikh Gurdwara Sahib Tempel zu sehen
تصویر: Chris Helgren/REUTERS

کینیڈا میں ایک علیحدگی پسند سکھ رہنما کے قتل میں بھارتی حکومت کے ملوث ہونے کے الزام کے بعد اوٹاوا اور نئی دہلی کی جانب سے ایک دوسرے کے سفارت کاروں کی ملک بدری کے باعث کینیڈا اور بھارت کے درمیان کشیدگی نئی بلندیوں پر پہنچ گئی ہے۔

 دونوں ملکوں کے درمیان یہ کشیدگی سکھوں کی اپنے لیے ایک آزاد وطن یا خالصتان کی تحریک کی وجہ سے پائی جاتی ہے۔ بھارت نے بارہا کینیڈا پر اس تحریک کی حمایت کا الزام لگایا ہے، جس پر بھارت میں پابندی عائد ہے۔

پیر کو کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے پارلیمنٹ میں ان الزامات کو قابل اعتبار قرار دیا تھا جن کے مطابق جون میں  ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں بھارت کا ہاتھ تھا۔ بھارتی حکومت نے نجر کے قتل میں کسی قسم کا ہاتھ ہونے کی تردید کی جبکہ یہ بھی کہا کہ کینیڈا خالصتان تحریک کی سرگرمیوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔

Kanada Protest
ہردیپ سنگھ نجر کینیڈا میں مقیم سکھ کمیونٹی میں ایک مقبول لیڈر تھےتصویر: Ethan Cairns/The Canadian Press/AP/picture alliance

خالصتان موومنٹ کیا ہے؟

بھارت میں سکھوں کی آزادی کی تحریک بالآخر ایک ایسی  خونی مسلح بغاوت بن گئی تھی، جس نے 1970ء اور 1980ءکی دہائیوں میں بھارت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس بغاوت کا گڑھ ملک کی سکھ اکثریتی شمالی ریاست پنجاب میں تھا۔ سکھ بھارت کی آبادی کا تقریباً 1.7 فیصد ہیں۔

سکھوں کی یہ شورش ایک دہائی سے زیادہ جاری رہی اور اسے بھارتی حکومت کے کریک ڈاؤن کے ذریعے دبایا گیا، جس میں ہزاروں لوگ مارے گئے، جن میں بہت سے ممتاز سکھ رہنما بھی شامل تھے۔ پولیس کی کارروائیوں کے دوران سینکڑوں سکھ نوجوان بھی مارے گئے۔ انسانی حقوق کےگروپوں کے مطابق بہت سے سکھوں کو حراست میں بھی لیا گیا۔

تاہم بھارتی حکومت اور سکھوں کے درمیان کشیدگی کا عروج اس وقت دیکھنے میں آیا، جب 1984ء میں بھارتی فوج نے امرتسر میں سکھوں کی مقدس ترین عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل پر دھاوا بول دیا تاکہ وہاں پناہ لینے والے علیحدگی پسندوں کو نکال باہر کیا جا سکے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس آپریشن میں تقریباً 400 افراد مارے گئے لیکن سکھ گروپوں کا کہنا ہے کہ اس کارروائی میں ہزاروں افراد مارے گئے۔

ہلاک ہونے والوں میں سکھ عسکریت پسند رہنما جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ بھی شامل تھے، جن پر بھارتی حکومت نے مسلح بغاوت کی قیادت کرنے کا الزام لگایا تھا۔ آپریشن بلیو اسٹار نامی اس کارروائی کی اجازت اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے دی تھی۔ اس وجہ سے 31 اکتوبر 1984ءکو اندرا گاندھی کو ان کی حفاظت پر معمور ان کے دو سکھ محافظوں نے قتل کر دیا تھا۔

ان  کی موت کے بعد سکھ مخالف فسادات کا ایک سلسلہ شروع ہوا، جس میں ہندو بلوائیوں نے پورے شمالی بھارت خاص طور پر نئی دہلی میں گھر گھر جا کر سکھوں پر حملے کیے اور ان میں سے بہت سے لوگوں کو مار ڈالا اور بہت سوں کو زندہ جلا دیا۔

Kanada, BC, Surrey | Khalistan-Flaggen sind vor dem Guru Nanak Sikh Gurdwara Sahib Tempel zu sehen
خالصتان تحریک بہت سے سکھ گرپوں پر مشتمل ہےتصویر: Darryl Dyck/The Canadian Press/ZUMA press/picture alliance

کیا تحریک اب بھی متحرک ہے؟

آج بھارتی پنجاب میں کوئی فعال شورش نہیں ہے لیکن خالصتان تحریک کو اب بھی اس ریاست میں موجود کچھ افراد کے ساتھ ساتھ بیرون ملک مقیم سکھوں کے بڑے گروہوں کی حمایت حاصل ہے۔ بھارتی حکومت نے گزشتہ برسوں میں بارہا خبردار کیا ہے کہ سکھ علیحدگی پسند دوبارہ فعال ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے بھی سکھ علیحدگی پسندوں کا تعاقب تیز کر دیا ہے اور اس تحریک سے منسلک مختلف تنظیموں کے درجنوں رہنماؤں کو گرفتار کر لیا ہے۔ جب بھارت میں کسانوں نے 2020 میں متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے نئی دہلی کے نزدیک ڈیرے ڈالے تو مودی حکومت نے ابتدا میں اس میں شامل سکھ شرکاء کو ''خالصتانی‘‘کہہ کر بدنام کرنے کی کوشش کی تھی۔

بعد ازاں دباؤ میں آکر مودی حکومت نے ان قوانین کو واپس لے لیا تھا۔ اس سال کے شروع میں بھارتی پولیس نے امرت پال سنگھ نامی ایک علیحدگی پسند رہنما کو گرفتار کیا تھا، جن پر خالصتان کے مطالبات زندہ کرنے اور پنجاب میں تشدد کے خدشات بھڑکانے کے الزامات لگائے گئے تھے۔

تیس سالہ امرت پال سنگھ نے اپنے جوش خطابت کے ذریعے قومی توجہ حاصل کر لی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ سے متاثر ہیں۔

Indien Neu-Delhi | Treffen | Narendra Modi und Justin Trudeau
بھارتی وزیر اعظم مودی اور ان کے کینیڈین ہم منصب جسٹن ٹروڈو کے مابین حالیہ جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس میں ملاقات کے دوران بھی سرد مہری دیکھنے میں آئی تھی تصویر: AFP

بھارت سے باہر تحریک کتنی مضبوط ہے؟

بھارت مسلسل کینیڈا، آسٹریلیا اور برطانیہ جیسے ممالک سے سکھ کارکنوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے لیے کہہ رہا ہے۔ وزیراعظم  مودی نے ذاتی طور پر ان ممالک کے وزرائے اعظم کے ساتھ یہ مسئلہ اٹھایا ہے۔ بھارت نے خاص طور پر کینیڈا کے ساتھ ان خدشات کو اٹھایا ہے، جہاں سکھ ملک کی آبادی کا تقریباً دو فیصد ہیں۔

 اس سال کے آغاز میں سکھ مظاہرین نے لندن میں بھارتی ہائی کمیشن پر سے بھارتی پرچم اتارتے ہوئے امرت پال سنگھ کی گرفتاری کے خلاف غصے کے اظہار کے طور پر سفارت خانے کی عمارت میں توڑ پھوڑ بھی کی تھی۔

 بھارتی وزارت خارجہ نے ان واقعات کی مذمت کی اور نئی دہلی میں برطانیہ کے ڈپٹی ہائی کمشنر کو طلب کر کے احتجاج کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ سکھ مظاہرین نے سان فرانسسکو میں بھی بھارتی قونصل خانے کی کھڑکیاں توڑیں اور ان کی سفارت خانے کے عملے کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں۔

بھارتی حکومت نے کینیڈا میں خالصتان کے حامیوں پر مارچ میں ایک احتجاج کے دوران ''بھارت مخالف‘‘ گریفٹی کے ساتھ ہندو مندروں میں توڑ پھوڑ اور اوٹاوا میں بھارتی ہائی کمیشن کے دفاتر پر حملہ کرنے کا بھی الزام لگایا۔ گزشتہ سال ایک سکھ عسکریت پسند رہنما اور خالصتان کمانڈو فورس کے سربراہ پرمجیت سنگھ پنجوار کو پاکستان کے شہر لاہور میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

ش ر⁄ ا ا (اے پی)